بلوچ لٹریسی کمپین کے توسط سے بلوچستان کے اعلی تعلیمی حقوق کےلیے منظم آگاہی مہم کا آغاز کررہے ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی

پریس ریلیز
میڈیا سے جڑے تما م صحافی حضرات کا شکریہ جو کہ مسلسل  اپنا قیمتی  وقت نکال کر صحافتی زمہ داریوں کاادارک کرتے ہوئے ہماری آوازعوام اور حکام بالا تک پہنچاتے ہیں۔ آج اس پریس کانفرنس کا بنیادی مقصد بساک کی جانب سے بلوچ لٹریسی کمپین کے تحت ’’ بلوچستان کے اعلی تعلیمی حقوق‘‘  مہم کا آغاز کرنا ہے۔ بی ایل سی کے توسط سے ہم بلوچستان کے اعلی تعلیمی حقوق کےلیے ایک منظم  آگاہی مہم چلانے جارہے ہیں جس کے تحت ہم پہلے  پانچ بنیادی مسائل پر توجہ دیں گے۔
             نصیرآباد ڈویژن میں پبلک سیکٹر یونیورسٹی کا قیام
             سکندر یونیورسٹی خضدار میں اکیڈمک پراسس کا اجراء
             رکنی بارکھان میں بلوچستان یونیورسٹی   اور لورالائی یونیورسٹی کے سب کمپسز کا قیام
             بلوچستان یونیورسٹی کے تعلیمی ، مالی اور انتظامی بحرانات کے خلاف جدوجہد
             بیوٹمز چلتن سریاب سب کیمپس کی بحالی اور کلاسز کا اجراء
 
بلوچ لٹریسی کمپین کا تعارف
ان مسائل کی گہرائی میں جانے سے پہلے ہم میڈیا کے توسط سے بلوچ عوام اور نوجوانوں کو بلوچ لٹریسی کمپین کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ بلوچ لٹریسی کمپین تنظیم کی جانب سے  پچھلے تین سالوں سے جاری ایک منظم  آگاہی مہم ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کی شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کےلیے شعوری اور عملی  کوششیں کرنا ہے۔ بی ایل سی کے تحت ہم نے بلوچستان اور ملک کے دیگر بلوچ اکثریتی علاقہ جات میں پرائمری اسکولوں، کالجز سے لے کر یونیورسٹیز کے مسائل پر کمپین چلائے ہیں۔ کمپین کے پہلے فیز میں ہم نے بلوچ اکثریتی علاقوں میں ہزار سے زائد اسکولوں کے تنظیمی دورے کیے اور اسکولوں کی فعالیت، بنیادی سہولیات کی دستیابی کے حوالے سے ڈیٹا کلیکشن کے بعد ریسرچ ڈیٹا کو بُک لیٹ کی شکل میں تنظیم کی جانب سے شائع کیا۔ آج بلوچ لٹریسی  کمپین کے تحت بلوچستان کے اعلی تعلیمی حقوق کے حوالے سے کمپین کا آغاز کیا جارہا ہے۔
 
معزز صحافی حضرات !
بلوچستان انفراسٹرکچر سمیت تعلیمی لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔معدنی وسائل سے مالامال خطہ انسانی بنیادی حقوق کی پامالیوں سمیت تعلیم جیسے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے شائع کردہ لٹریسی رپورٹس اس بات کی  شاہد ہیں کہ بلوچستان میں  لٹریسی ریٹ 26  سے 30 فیصد تک ہوگی اور فیمل لٹریسی ریٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ اگر اعلی تعلیمی سہولیات پر نظر دوڑائی جائے تو بلوچستان کی آبادی، رقبے اور وسائل کی نسبت سہولیات آٹے میں نمک کے برابر ہیں یعنی نہ ہونے کے برابر۔ دنیا بھر میں تعلیم کو انسان کا بنیادی حق تصور کیا جاتا ہے، بین الاقوامی قوانین، عالمی تعلیم سے متعلق تنظیموں کے مطابق ہر ریاست اپنے شہریوں کو بلا تقریق بنیادی اور اعلی تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کا پابند ہے لیکن بدقسمتی کے ساتھ بلوچستان اور خاص کر  ملک کے بلوچ اکثریتی علاقہ جات تعلیم کے بنیادی سہولیات سے اس جدید دنیا میں بھی محروم ہیں۔ بلوچستان کو دانستہ طور پر تعلیمی میدان میں پسماندہ رکھ کر بلوچ عوام کو ناخواندگی کے زریعے شناختی بحران کی طرف دھکیلا جارہا ہے جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں آتا ہے۔
معزز صحافی حضرات!
پچھلے ستر سالوں سے بلوچستان کے باشندوں کو دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح برتاؤ کیا جاتا آرہا ہے۔ حالانکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 (A)، آرٹیکل 37 ( Clause b & c)، آرٹیکل 38 ( Clause d) تمام ریاستی  اداروں کو پابند کرتی ہے کہ وہ تمام شہریوں کو بلاتفریق نسل، زبان اور علاقے تعلیم، انسانی بنیادی سہولیات یکساں فراہم کرنے کے پابند ہیں لیکن تعلیمی میدان میں ان محرومیوں اور دوغلے پالیسیوں کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ملک بھر میں اس وقت 233سے زائد رجسٹرد پبلک یونیورسٹیاں فنکشنل ہیں جن میں سے 100 سے زائد پنجاب اور اسلام آباد میں جبکہ صرف  09  یونیورسٹیاں اس وقت بلوچستان میں فنکشنل ہیں۔ کراچی سے لے کر جیونی تک 800 سے زائد کلومیٹر پر محیط علاقے میں صرف ایک یونیورسٹی  گوادر میں موجود ہے اور وہ بھی محدود وسائل میں کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ کیچ سے لے کر کوئٹہ تک، کوئٹہ سے لے کر ڈیرہ بگٹی ، کوہلو تک، اور پورے  سراوان و جھلاوان ریجن میں کتنی یونیورسٹیاں موجود ہیں؟ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر چند ایک جامعات آپکو ملیں گے جو کہ خود بھی پوری طرح اعلی تعلیمی سہولیات کے فقدان سے دو چار ہیں۔
 
معزز صحافی حضرات!
بلوچستان میں موجود جامعات پر اگر نظر دوڑائی جائے تو  بلوچستان کا کوئی باشعور شخص ان جامعات کے کوالٹی آف ایجوکیشن، مالی بحرانات، انتظامی مسائل، میرٹ کی پامالیاں، ھراسمنٹ اور دیگر بنیادی مسائل سے انکاری نہیں ہوگا۔بدقسمتی کے ساتھ دانستہ طور پر وفاق اور صوبائی حکومتیں مسلسل  بلوچستان میں اعلی تعلیمی نظام کو مفلوج کرتے نظر آرہے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد ملک بھر میں یونیورسٹیز آٹونومیس باڈی کے طور پر ابھرے اور ہر صوبے میں صوبائی( ہائر ایجوکیشن کمیشن)  ایچ ای سی بنائی گئی لیکن بلوچستان وہ واحد صوبہ رہا ہے جہاں آج بھی یونیورسٹی بلوچستان حکومت  اور دیگر مقتدرہ قوتوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں اور ان جامعات کو اسکولوں کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آج تک صوبائی ایچ ای سی کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ سال 2022-23  بجٹ بلوچستان ھکومت کی جانب سے ٹوٹل 614  بلین روپے منظور ہوئے جس میں صرف 2.5  بلین روپے  گیارہ یونیورسٹیوں کےلیے مختص کیے گئے۔
 
جامعہ بلوچستان کے مسائل:
 
 بلوچستان یونیورسٹی جو کہ پچھلے پچاس سالوں سے فنکشنل ہے ترقی کرنے کی بجائے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ جامعہ بلوچستان آج تعلیمی، مالی اور انتظامی مسائل کا آماجگاہ بن چکی ہے۔ حالت یہ ہیں کہ یونیورسٹی کے ٹیچرز، مالی اور دیگر اسٹاف پچھلے تین سالوں سے اپنے تنخواہوں کی  عدم ادائیگی کےخلاف  سڑکوں پر ہیں۔ مالی بحران کی وجہ  سے جامعہ بلوچستان میں فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے۔ یونیورسٹی کے سیمسٹر فیسز،  ہاسٹلز فیسز، ھاسٹل میس سسٹم اتنے مہنگے ہوچکے ہیں کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے طالبعلم  اپنے اخراجات پورے نہیں کر پارہے ہیں۔  اس کے علاوہ جامعہ بلوچستان انتظامی مسائل کی وجہ سے بیشتر اوقات بند رہتا ہے جس سے طالبعلموں کی تعلیمی کرئیر شدید متاثر ہورہی ہے۔ یونیورسٹی کے اندر کرپشن، تعصبانہ رویے، طالبعلموں کو سیاسی و شعوری سرگرمیوں سے روکنے کے عمل بڑھتے جارہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جامعہ بلوچستان کو دانستہ مسائل کا گڑھ بنا کر بلوچستان کے اعلی تعلیمی نظام کو زدوکوب کرنے کی منظم سازشیں جاری ہیں تاکہ بلوچستان کے عوام  کو تعلیم سے دور رکھ کر انہیں نا خواندگی کے زریعے مزید شناختی بحران کا شکار بنائیں اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو جاری رکھ سکیں۔ اس پریس  کانفرنس کے توسط سے ہم بلوچ عوام کو جامعہ بلوچستان کی تباہی سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ جامعہ  بلوچستان ہمارے معاشرے کی شہ رگ ہے جسے آہستہ آہستہ ہم سے کٹ کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے کہ جامعہ بلوچستان ایک کھنڈرات بن چکا ہو یا بلوچستان کے بچے اس میں پڑھنے کےلیے ترس رہے ہوں آئیں آواز اٹھائیں اور اپنے جامعہ کو مزید تباہی سے بچائیں۔
 
بیوٹمز چلتن کیمپس کی غیر فعالیت:-
 
بیوٹمز  جو کہ جامعہ بلوچستان کے بعد کوئٹہ کا دوسرا بڑا یونیورسٹی ہے۔ بیوٹمز یونیورسٹی میں بلوچ اسٹاف اور طالبعلموں کے ساتھ متعصبانہ رویے اپنے عروج پر ہیں۔ اس کے علاوہ چلتن کیمپس جس کی بلڈنگ تقریبا  بیس سال سے تیار ہے ابھی تک وہاں کلاسز کا اجراء نہ ہو سکا۔ حالانکہ بیوٹمز کا مین کیمپس چلتن میں بننا تھا لیکن سیاسی اثرو رسوخ اور بلوچ عوام سے دوغلا رویے کے سبب بیوٹمز کو دوسری جگہ شفٹ کیا گیا جبکہ چلتن میں کیمپس کھولنے کا اعلان کیا گیا۔ چلتن سریاب کے دامن میں واقع بلوچ اکثریتی علاقہ ہے۔ سریاب جو کہ بلوچستان کا مرکز ہے لیکن تعلیمی لحاظ سے سب سے پیچھے ہے۔ بیس سال گزرنے کے باوجود بیوٹمز کے چلتن کیمپس میں کلاسز کا اجراء نہ کرنا سرعام بلوچ دشمن اور تعلیم دشمن پالیسی ہے جس کے خلاف سریاب کے عوام سے بھرپور آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔
 
سکندر یونیورسٹی خضدارکی عدم فعالیت:-
 
 ہمارے اس کمپین کا تیسرا بڑا مقصد سکندر شہید یونیورسٹی خضدار  میں تدریسی عمل کے اجراء کا ہے۔ اسکندر یونیورسٹی جو کہ قلات ڈویزن کے دل خضدار میں واقع ہے جس کی منظوری سال 2017 میں ہوئی اور 2021 میں سکندر یونیورسٹی کے تمام بلڈنگز مکمل تیار ہوگئے ہیں۔ لیکن پورے چار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اسکندر یونیورسٹی  میں اکیڈمک عمل کی شروعات کے  حوالے سے کوئی ایکٹ پاس نہیں ہوئی اور نا ہی کلاسسز کا اجرا ء ہو سکا ہے۔ چار سال گزرنے کے بعد یونیورسٹی بلڈنگ فنکشنل نہ ہونے کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہورہی ہے۔ یہ یونیورسٹی پورے قلات ڈویزن کے بلوچ عوام اور طالبعلموں کےلیے نہایت ہی اہمیت کا  حامل ہے۔ لیکن حکومتی عدم توجہی، سیاسی مداخلت اور یونیورسٹی کے تدریسی عمل کے اجراء میں بار بار منظم سازشیں تعلیم دشمن قوتوں کے ہی شاخسانے ہیں۔ ھم خضدار اور قلات بھر کے بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اسکندر یونیورسٹی خضدار کی تدریسی عمل کی فعالیت کےلیے اس مہم کا حصہ بن کر اپنی آواز اٹھائیں۔
 
نصیرآباد یونیورسٹی کا قیام:-
 
نصیرآباد ڈویژن   جو کہ ملک کے سب سے بڑے زرعی خطے میں شمار ہوتا  ہے آبادی کے لحاظ سے 22 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ڈویژن ہے۔ نصیرآباد زرعی حوالے سے زرخیز خطہ اور پورے ملک کو خوراک کی فراہمی یقینی بناتا ہے لیکن نصیرآباد کے بچے ستر سال گزرنے کے باوجود آج بھی بنیادی تعلیم کے سہولیات سے محروم ہیں بلکہ ستر سالوں میں پوراخطہ اعلی تعلیمی سہولیات سے محروم رہا ۔ خدا خدا کرکے 2017 میں لوامز کا ایک سب کیمپس منظور ہو اور 2019 میں اسی کیمپس کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کےلیے بلوچستان حکومت کی جانب سے فیصلہ لیا گیا لیکن ستر سال گزرنے کے باوجود ابھی تک نصیرآباد یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا نہیں جا سکا۔ نصیرآباد میں یونیورسٹی کا قیام وقت کی اشد ضرورت اور عوام کی امنگ ہے۔ اس کمپین کے تحت ہم مقتدر قوتوں سے نصیر آباد یونیورسٹی کے جلد ازجلد قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔
 
رکنی میں یونیورسٹی سب کیمپسز کا قیام :-
 
 اس کے علاوہ  2019  میں بلوچستان حکومت کی جانب سے رکنی میں بھی بلوچستان یونیورسٹی اور لورالائی یونیورسٹی کے سب کیمپسز کی بھی منظوری دی گئی لیکن پانچ سال گزرنے کے باجود ایک بھی کیمپس فنکشنل نہ ہو سکا۔ سال 2020 میں رکنی کیمپس کےلیے چودہ کروڑ کی خطیر رقم بھی منظور ہوئی لیکن یہ رقم کہاں چلی گئی کسی کو نہیں معلوم نہیں۔ رکنی کوہ سلیمان کے علاقوں جن میں  بارکھان، کوہلو، ڈیرہ بگٹی، فورٹ منرو، موسی خیل کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے یہاں یونیورسٹی کے سب کیمسز کا قیام وقت کی اہم ضروریات میں سے ایک ہے۔ ہم ان علاقوں کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ رکنی میں یونیورسٹی کے قیام کےلیے ہمار ے مہم کا ساتھ دے کر اپنی آواز اٹھائیں۔
 
 
معزز صحافی حضرات!
 
آخر میں اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم بلوچ عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ اس مہم کا بھرپور ساتھ دیں اور اپنے اپنے علاقوں میں ہونے والے سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس مہم کے تحت متعلقہ علاقوں میں انٹریکٹو سیشنز، ایجوکیشنل واک اور پرامن احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا جائے گا۔ آخر میں  ہم حکام بالا سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے درج زیل عوامی  مطالبات پر غور کرکے ان پر سنجیدگی سے کیا جائے ۔
 
1۔ نصیرآباد ڈویژن میں  یونیورسٹی کا قیام جلد از جلد عمل میں لایا جائے۔
2۔ سکندر یونیورسٹی خضدار میں اسی سال تدریسی عمل کا آغاز کیا جائے۔
3۔ رکنی میں جامعہ بلوچستان اور لورالائی یونیورسٹی کے سب کیمپسز کی فعالیت پر کام شروع کی جائے۔
4۔ بیوٹمز چلتن کیمپس کو جلد از جلد بحال کرکے کلاسز کا اجراء کیا جائے۔
5۔ بلوچستان یونیورسٹی کے مالی بحران کو ختم کرنے کےلیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں اور بلوچستان یونیورسٹی کے انتظامی مسائل جن میں  کرپشن ، فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ، فیمیل ہاسٹلز  کی غیر فعالیت، اکیڈمک روٹین  میں مسلسل بے تعطلی، طلباء سرگرمیوں پر غیراعلانیہ پابندیاں اور دیگر مسائل پر سنجیدگی دکھائی جائے اور انہیں فلفور حل کرنے کےلیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

Share To

About Admin

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth.

Check Also

بلوچستان یونیورسٹی کو دانستہ بنیادوں پر مالی و انتظامی بحران کا شکار بنانا بلوچستان میں تعلیمی نظام کو درہم برہم کرنے کی واضح پالیسی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کو دانستہ بنیادوں پر مالی و انتظامی بحران کا شکار بنانا بلوچستان میں …