کتاب تاریخ اور عورت کا ریویو

تاریخ اور عورت
مصنف : ڈاکٹر مبارک علی
تحریر : سیمک بلوچ

تاریخ اور عورت ڈاکٹر مبارک علی کی تاریخ پر لکھی گئی شاہکار کتابوں میں سے ایک ہےجس میں وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں عورتوں کی معاشرے میں سیاسی و سماجی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ کس طرح تاریخ نے عورتوں کے کردار کو نظرانداز کیا، اور عورتوں کو کس طرح ہر معاشرتی ادوار میں ظلم اور ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈاکٹر مبارک علی اس کتاب میں عورت کی تاریخ کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ تاریخ لکھنے والوں نے کس طرح عورت کو تاریخ سے مسخ کیا، عورت کی پہچان کو کس طرح بیان کیا ہے کس طرح مورخوں نے عورت کو نظر انداز کیا اور مرد کو آگے لے جایا گیا۔
اس کتاب میں جگہ جگہ عورتوں کے ان کارناموں کا ذکر کیا گیا ہے جن کی بدولت عورت تاریخ کا حصہ بن سکتی تھی لیکن کچھ تاریخ دانوں کی اپنی کمزوری نے اور بڑے بادشاہوں کے شان و شوکت نے انہیں ایسا کرنے نہیں دیا۔ ایک جرمن خاتون کہتی ہیں کہ میری تاریخ کی کتابیں جھوٹ بولتے ہیں کہ میرا کوئی وجود نہیں تھا، تاریخ میں عورت کا وجود ہے لیکن وہ وجود مرد نے تشکیل دی ہے ہماری پوری تاریخ مردوں کی تاریخ ہے عورت کی نہیں۔
 ایک عرصے تک یہ مقبول تھا کے تاریخ کی تکمیل و تشکیل صرف مرد ہی کرسکتے ہیں اگر عظیم مرد نہ ہوں تو تاریخ رُخ جاتا ہے۔ تحریری تاریخ کا وجود میں آتے آتے معاشرے میں مردوں کا اختیار زیادہ تھا۔ عورت کی سماجی حیثیت گِر چُکی تھی۔ شروع کے زمانے میں جب مختلف قبیلوں میں آپسی جنگ ہوتی تھی تو اس میں اپنی لڑکیوں کو دوسرے قبیلوں میں شادی کرا کر آپسی رشتے قائم کیے جاتے تھے جنگیں ختم ہو سکیں۔  اگر آسٹریلیاء کی مثال لیں تو وہاں کے قدیم باشندوں میں یہ رواج تھا کہ وہ مخالف قبیلوں سے دوستی کرنے کی غرض سے اپنی عورتوں کو ان کے پاس بیج دیتے تھے، بعد میں سفید فام لوگوں سے دوستی کرنے کے لئے اپنے عورتوں کا استعمال کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ مرد نے ہمیشہ اپنی عزت اور تخت کے لئے عورت کو قربان کیا ہے اس کی سب سے بڑی مثال بابر ہے، بابر جب سمرقند میں تھا تو اس کی جانی دشمن شیبانی خان نے جب سمرقند کو گھیر لیا تو بابر کے لئے فرار یا  کامیابی کی کوئی اُمید نہیں تھی تو بابر نے اپنی بہن خانذادہ بیگم کی شادی شیبانی خان سے کر لی اور خود وہاں سے فرار ہو گیا۔ اس طرح کی اور بھی بہت سے مثالیں ہیں جہاں بادشاہوں نے عورتوں کو اپنی بادشاہت بچانے کی گرز سے استعمال کیا، اسی طرح راجپوت حکمرانوں نے بادشاہ اکبر کو شادی کے لئے اپنی لڑکیاں پیش کیں تاکہ وہ مغل خاندان اور سلطنت کا حصہ بن کر سلطنت کو راجپوتوں کی مزاحمت سے بچا کر مضبوط کیا جاسکے۔
عورت کی قربانیوں نے کئی قبائلی آپسی جنگوں کو ختم کیا ہے ایک دور میں غلاموں کو دیوتاؤں کے لئے قربان کیا جاتا تھا اور بعد میں آقاؤں کو خوش رکھنے کے لیے جانوروں کی قربانی دی گئ۔ اس قُربانی میں ُُعورت بھی شامل تھی۔ عورتوں کو کھبی دیوتاؤں کی خوشی کے لئے قربان کیا جاتا تو کھبی دریاؤں کی تفیاتی سے بچاؤں کی خاطر قربان کیا۔ جس شئے کو قربان کیا جاتا یے اس کی اہمیت نہیں ہوتی اسی طرح عورتوں کی بھی معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ جنگوں کے زمانے میں سب سے زیادہ ازیت کا شکار عورتیں ہی ہوتی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں روسیوں نے جرمن عورتوں کی عصمت دری کی اور اُس وقت سربیا اور بونسیا کی جنگ میں سربیا کے فوجی بونسیا کی عورتوں کی عصمت دری کر ریے تھے۔ فاتح افواج مفتوح قوم کی عورتوں کی عصمت دری کر کے اپنی مردانگی اور فتح کو ثابت کرتے تھے۔ مرد کی مردانگی بھی عورت کے زریعے ثابت کی جاتی ہے جس کے زریعے سے مرد معاشرے میں عزت اور احترام حاصل کرتا ہے۔
برطانوی آفسر سر مالکم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ راجستھان ریاست کی ایک خوبصورت شہزادی کے لئے دو راجہ آپس میں لڑنے کے لیے تیار ہوئے تو اس پر شہزادی کے باپ کو لوگوں نے بتایا کہ اس جنگ کی وجہ شہزادی ہیں تو بادشاہ نے شہزادی کو اس لیے جان سے مار دیا کہ جنگ ختم ہو جائے، اس میں بھی جنگ کی وجہ عورت کو ٹہرایا گیا کہ عورت کی خوبصورتی کی وجہ سے لوگ آپس میں لڑتے ہیں۔ کچھ تاریخ دان نورجہان کو الزام دیتے ہیں کہ اس نے جہانگیر  کو اپنے قابوں میں رکھ کر اس سے اپنے مرضی کے فیصلے کرائے جس کی وجہ سے مغل سلطنت میں خرابیاں آنا شروع ہوئیں۔
 تاریخ میں عورتوں کا بڑا کردار رہا ہے جن میں وہ ملکہ کی حیثیت سے بھی آتی ہیں ہندوستان میں رضیہ سلطانہ چاند بی بی، انگلستان میں الزبتھ، روس میں کیترائن، اور آسٹریلہ میں ٹریسا جیسی عورتوں کا کردار رہا ہے مگر مورخین ان کی حکومت میں کمزوریاں ڈھونڈتے ہیں۔ سیاست کی تمام خرابیوں اور ناکامیوں کو ان کی  بے خبری اور ان کے دور کی کامیابیوں کا زمہ دار مرد کو کرار دیتے ہیں-
ڈاکٹر مبارک علی نے تاریخ اور مورخوں کا عورت پر کیے جانے والی ناانصافیوں کو بہترین انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں جب بھی قوموں کے عروج کا زکر ہوتا ہے تو اس میں عورت شامل نہیں ہیں مگر جب قومیں زوال کی طرف جاتی ہیں تو ساری زمہ داری عورت پر ڈال دیا جاتا ہے اس صورت میں حکمران طبقوں پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ انہیں عورت اور شراب نے تباہ کردیا ہے-
گورڈن چائلڈ نے اپنی کتاب ”تاریخ میں کیا ہوا“؟ آثار قدیمہ کی شہادتوں پر ان تمام کاموں کی تفصیل دی ہے جس کی ابتداء عورتوں نے کی تھی، مثلاً جدید پتھر کے زمانے میں عورتیں زمین جوتی تھی، اناج پیستی تھی اور روٹی بنانے کے ساتھ دھاگہ بنانے کے فن سے بھی واقفیت رکھتی تھیں، اور مرد کاشت کاری، مکان بنانا، درخت کے جھاڈیاں صاف کرنے اور لکڑیاں کاٹنے کے کام سے وابستہ تھا۔ یونان سے لیکر چین تک دیومالائی میں عورت کو زراعت  اور کپڑا بنانے کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔  گھروں کی تعمیر اور گاؤں کو آباد کرنے میں بھی عورتوں کا ہاتھ تھا۔ مرد کا کام پتھروں کو تراش کر  ان سے ہتھیار اور کشتی بنانا مردوں کے کام تھے ۔  اس زمانے میں عورت قبیلوں کے سربراہ ہوا کرتی تھیں۔اوران کے نام سے نسل چلتی تھی اس کے وارث اس کی لڑکیاں ہوتی تھیں، باپ کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا تھا اس لئے ماں کے زریعے ہی خاندان چلتا تھا۔
اینگلز اپنی کتاب ”خاندان نجی ملکیت اور ریاست “ میں لکھتے ہیں کہ نجی ملکیت نے عورت کی آزادی اور خود مختاری کو ختم کردیا۔ اس کی سب سے پہلی نشانی یہ تھی کےعورت صرف ایک مرد کے لئے مخصوس ہوکر رہ گئی۔ اور مرد کو یہ حق حاصل ہوگیا کے وہ کئی بیویاں رکھ سکتی تھی اس کا واحد مقصد یہ تھا کے خاندان  کےاندر مرد کی حکمرانی ہو۔
یونانی تاریخ کے ابتدا میں عورت سر گرمِ عمل نظر آتی ہے مگر بعد میں غائب ہوجاتی ہے مثلاً ایروڈوٹس کی تاریخ میں عورت کا زکر ہر جگہ موجود ہے مگر تھیوسی ڈائیڈس کی تاریخ میں اس کا کوئی زکر نہیں۔ رومیوں کے عہد میں بھی عورت کی سماجی مرتبہ گرا ہوا ہی رہا۔ عورت کا سب سے بڑا کام یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچہ پیدا کرے۔ رومی دور میں عورت مکمل طور پر مرد کے زیر اثر تھی یہودیت اور عیسائیت کے آتے آتے عورت سماجی طور پر بلکل گرِ چُکی تھی تِیرت میں کہا گیا ہے اپنے بیویوں سے ایسے بات کرو جیسے آقا غلام سے اور  بادشاہ نوکر سے کرتا ہے۔ اس زمانے میں مرد عورت کو جب چائے طلاق دے سکتا تھا لیکن عورت کو مرد سے علیحدگی کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔  باپ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو فروخت کردے۔ عورتوں کو ماہواری کے ایام میں علیحدہ رکھا جاتا تھا۔ چرچ میں عورت کی برائیاں اس قدر بیان کی گئی تھی کہ نفسیاتی تور پر عورت اپنی زات پر شرمندہ ہونے لگے اس لئے کہ وہ گناہ گار ،برائی اور خرابی کی وجہ ہے اور دنیا میں تمام برائیاں ان ہی کی وجہ سے ہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمٹی

Share To

About Admin

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth.

Check Also

ژانگولیں جون ءِ کسّہ

ژانگولیں جون ءِ کسّہکتاب: مسخ شدہ لاشچمشانک :  سنا سنگین گوریچ ءِ بانزل لہم ترّان انت۔ …