بصارت کُش اندھیروں میں قید بلوچ طلباء

بصارت کُش اندھیروں میں قید بلوچ طلباء

رفیق بلوچ (وائس چئیرمین بساک)  

آج سے کئی دہائیوں پہلے مراکشی آمر کے خلاف فوج میں ناکام بغاوت ابھرتی ہے اس بغاوت کے مجرمین کو حاکموں نے سخت سزائیں دینے کا اعلان کیا، انہی سزاؤں میں تازمرات کی ایک تنگ و تاریک زیر زمین قیدخانے تھے انہی قیدخانوں میں بیس سال تک زندان کے نذر ہونے والے ایک قیدی کی آپ بیتی “ بصارت کُش اندھیرے “ کے نام سے ناول بن کے آئی۔ ہمارے ہاں ایسے قیدیوں کی ہزاروں داستانیں ہیں اگر نہیں ہے تو ان کہانیوں کو دنیا تک پہنچانے والے قلم کاروں کی کمی، ان بے بس آوازوں کو تحریروں میں لانے والوں کی کمی، ان آنسوؤں اور سسکتی سانسوں کی تشریح کرنے والوں کی کمی۔

ہمارے وطن میں تازمرات جیسی نہ جانے کتنی “ قُلی کیمپیں” ہیں انہی کیمپوں میں قید بلوچ طلبا، زند و مرگ کی جنگ لڑرہے ہیں اور ان تازمراتوں سے باہر “ ہزاروں دردوار “ انتظار کی لمحوں کے ساتھ لڑائی لڑ رہے ہیں۔

جبری گمشدگیاں دنیا کیلیے بالعموم اور بلوچستان کیلیے بالخصوص نئی نہیں ہیں۔ جب ارجنٹائن، چلی یا لاطینی امریکہ میں اس جرائم سے دنیا آشنا ہورہا تھا ہمارے کاہان کے مری بلوچ اس سے بھی بہت پہلے “ تارکولوں کے گرم ڈرموں” میں ڈالے جاتے تھے، دلیپ داس، اسد مینگل، علی شیر مری وہ ابتدائی لوگ تھے جو تازمرات کے نذر ہوئے اور آج تک ان کا کوئی خبر نہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے تازمرات اور اس کے بصارت کش اندھیروں کے حوالے ہزاروں بلوچ طلبا ہوئے ہیں۔ مراکش کے تازمرات نامی کیمپ کو دنیا مٹا چکا ہے مگر آج کے جدید دنیا جہاں انسانی حقوق، عالمی ادارے، جمہوریت، اظہار رائے آزادی کے لبرل نعرے ہر جہاں موجود ہیں مگر بلوچ طلبا کی چیخیں “ قُلی کیمپوں” سے ان اداروں تک پہنچ کر بھی کسی کو جنجھوڑ نہیں پاتیں۔

سُہیل اور فصیح بلوچ بھی انہی تازمرات میں پچھلے دو سالوں سے قید ہیں، خواب دیکھنے کی عمر میں ان کی روشن آنکھیں “ بصارت کُش اندھیروں” کے نذر ہوئے ہیں۔ اسی ناول میں ایک کردار تازمرات میں قید لوگوں کی مائیں ہیں، جنہیں بیس سال تک اپنے بچوں کی کوئی خبر نہیں پہنچ پاتی، کئی ایک انہی قیدخانوں میں جان سے جاتے ہیں وہیں دفنائے جاتے ہیں۔ ان کی مائیں بھی اپنے بچوں کی میت یا ان کی آخری آرام گاہ کو دیکھنے کی درخواستیں کرتے کرتے خود دو گز زیر زمین چلے گئے۔ آج بلوچ مائیں بھی “ اگر ہمارے بچے مار دئیے گئے ہیں” تو ان کی لاشیں یا قبریں ہمیں دکھا دیں” کی التجائیں کررہی ہیں۔

سہیل کی ماں پچھلے دو سالوں سے روزے رکھی ہوئی ہے کہ شاید اوپر والا اس کی عبادتوں کے عوض اس کا کم سن بچہ اسے واپس لوٹا سکے۔ بی بی سی کو دی گئی انٹرویو میں اس نے کہا تھا “ سہیل میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے، میں ایک پل خود سے اسکو دور کرنا نہیں چاہتی تھی، وہ پڑھنے کے غرض سے کوئٹہ گیا، مجھے کیا معلوم تھا کہ پاک اسٹڈی کی کتاب ہاتھ میں تھامے میرا بیٹا زندانوں کے نذر ہوگا”

سہیل اور فصیح سمیت سینکڑوں بلوچ طلبا اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ نہ ملکی عدالتیں، نا جبری گمشدگیوں کے نام پہ بننے والے کمیشن کسی ایک کا بھی کوئی خیر خبر ان بصارت کش زندانوں سے نکال سکے۔ بلوچستان کی گلی کوچوں میں تصاویر اٹھائے بلوچ مائیں تھک چکی ہیں، سڑکوں، چوک چوراہوں پہ سرد راتوں اور جسم کو جلا دینے والی گرمی میں، آندھی و طوفانوں میں لرزتے ہونٹوں اور لڑھکتی سانسوں کے ساتھ بس ایک ہی ورد کیے جاتی ہیں “ میرا بیٹا مجھے واپس لوٹا دو”

تازمرات کے قیدیوں کو بچانے “ ریڈ کریسنٹ” نامی عالمی تنظیم پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے قیدیوں کے “ ریڈ کریسنٹ” ہم ہیں ہمارے لوگ ہیں، ہمارا عوامی طاقت ہے جس کو سمجھنا ہوگا کہ کوئی موسیٰ اب نہیں آنے والا، فرعونوں سے اپنے بچوں کی لڑائی انہیں خود لڑنا ہے۔  اگر ہم خاموش رہے تو کہیں ہمارے بچوں کے ساتھ بھی “ بصارت کش اندھیروں” والے کردار کی طرح نہ ہوجائیں

“ ناول کا کردار زندان سے واپس زندہ لوٹ آتا ہے تو اسے معلوم پڑتا ہے کہ اس کی ماں سمیت باہر کی دنیا تازمرات کے وجود سے انکاری ہیں کہ ایسا کوئی کیمپ وجود نہیں رکھتا تھا” آج طاقت کے نشے میں دھت حکمران بلوچ جبری گمشدہ افراد کی تعداد “ پچاس” بتاتے ہیں۔

ہمیں خود ہم آواز ہوکر ان “ بصارت کُش اندھیروں میں قید” بلوچ طلبا کی کہانیاں دنیا تک پہنچانے ہوں گے۔ دنیا صرف مظلومیت یا محکومیت کے نام پہ ہمیں نہیں سنے گا، نہ ہی دعاؤں، التجاؤں سے حاکموں کے دلوں میں رحم آسکتا ہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو سیاسی مزاحمت کی اہمیت و افادیت بتانے ہوں گے۔ بلوچ قومی اقدار میں رشتوں کی اہمیت سے کوئی بلوچ ناواقف نہ ہوگا۔ بلوچ جبری گمشدہ افراد کے خاندانوں میں خوف اور دہشت کی وجہ سے اپنے بچوں کو خود نہ اپنانے کی موجودہ روش ختم کرنا ہوگا۔ جب تک والدین اپنے بیٹے کیلیے، بھائی اپنے بھائی کیلیے خود آگے بڑھ کر اسے نہیں اپنائے گا تو دوسروں سے توقع رکھنا یا خاموشی میں سسک کر مرجانا اس مرض کی دوا نہیں ہے۔ بلوچ انسانی حقوق کی تنظیمیں جبری گمشدہ افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں مگر ان ہزاروں میں چند درجن خاندان ایسے ہیں جو ان کو اپناتے ہیں سامنے آتے ہیں کورٹ کچہری، میڈیا سمیت احتجاجی راہ اپناتے ہیں۔ ہزاروں خاندانوں نے چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے کہ شاید اس خاموشی سے ان کے پیارے ایک دن واپس آئیں گے۔ یہی خاموشی طاقتوروں کو موقع فراہم کررہا ہے کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد کے وجود سے انکاری ہیں، وہ ہزاروں کی تعداد کو عالمی میڈیا اور اداروں کے سامنے “ پچاس” بتاتے نہیں کتراتے۔ ان بصارت کُُش اندھیروں کے خلاف مزاحمت کے چراغ خود ہمارے لوگوں نے روشن کرنے ہوں گے۔

User Rating: 2.71 ( 6 votes)
Share To

About Admin

Baloch Students Action Committee is a Student political organization that aims to work for the betterment of Education in Balochistan and politicizing the youth.

Check Also

Decolonizing the mind in perspective of Ngugi wa Thiong’o

Decolonizing the mind in perspective of Ngugi wa Thiong’o Reviewed by Zeeshan Baloch   Baloch …