آفت زدہ بلوچستان اور ہماری جدوجہد

آفت زدہ بلوچستان اور ہماری جدوجہد

آصف بلوچ
سیکریٹری جنرل بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ایک طلبا تنظیم کی حیثیت سے گزشتہ ایک دہائی سے بلوچستان بھر میں طلبا کو یکجا کرنے اور نوجوانوں کو ایک ایسی پلیٹ فارم مہیا کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے جہاں نوجوان نسل کی سیاسی و شعوری نشونما ممکن بنایا جا سکے۔ 2018 میں پہلی کونسل سیشن منعقد کرنے کے بعد تنظیم کو بلوچستان بھر میں وسعت دینے کی کوششوں کےباعث آج ڈیرہ غازی خان سے لیکر کراچی اور کیچ سے لیکر نصیر آباد تک تنظیم کے سترہ زون مکمل طور پر فعال ہیں اور تنظیمی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تنظیم کی جانب سے منعقد کردہ ایجوکیشنل اور لٹریری فیسٹیول کے تسلسل نے جس طرح بلوچ عوام اور بالخصوص نوجوان نسل میں ایک نئی بحث مباحثےکا آغاز کیا تو دوسری جانب تنظیمی اراکین کے ہفتہ وار اسٹڈی سرکلز طلبا کےعلمی و سیاس پختگی کا موجب بن رہی ہیں۔ تنظیمی لٹریچر سے لیکر تمام ترسیاسی سرگرمیوں کا بنیادی مقصد بلوچ نوجوانوں کو شعور و فکر کے بنیاد پر یکجا کرتے ہوئے انکی تربیت کرنا ہے تاکہ نوجوان نسل ہر طرح کے حالات میں عمل سے جڑ کر بلوچ سماج کی راہیں متعین کریں۔
مذکورہ بالا سطور میں جس شعور کا ذکر کیا جا رہا ہےوہ قومی شعور ہے جس کے تمام تر پہلو اجتماعی بنیادوں پر استوار ہیں۔ یہ وہ شعور ہے جس میں تمام قسم کے علاقائی ، لسانی، قبائلی اور انتظامی رکاوٹوں کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے۔ ایسےمشعل کی مانند ہے جس کو مضبوط ہاتھ تھامے اُس ڈگر پر چل پڑتے ہیں جن سے وہ نا آشنا ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کےلیے روشنی کا باعث بنتے ہیں جنھیں وہ جانتے تک نہیں۔ جب زمین کے ایک کونے پر بسنے والے باشندوں کو کسی قسم کا دکھ، درد یا تکلیف ہو تو دوسرے کونے پر بیٹھے افراد نہ صرف اس درد و تکلیف کو محسوس کریں بلکہ بغیر کسی ذاتی، سیاسی اور گروہی مفاد کے اپنے لوگوں کی کمک کو پہنچ جاتے ہیں۔ حالانکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ زمین کے دونوں پول پر براجمان ان باشندوں نے کبھی ایک دوسرے سے نہ تو ملاقات کیا ہو گا، نہ ہی ان کے درمیان سماجی رشتہ وجود رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی معاشی مفاد وابستہ ہوں گے۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسا جذبہ جو اس یکجہتی کو قائم رکھتا ہے اور وہ کونسا شعور ہے جو انسان کو اپنی ذات سے لاغرض بناتے ہوئے اجتماعی عمل کا حصہ بناتا ہے؟
اگر میں اس شعور کو قومی اور اس جذبے کوقومی بنیادوں پر ہی اجتماعی تصور کروں تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ قومی شعور کے علاوہ کوئی بھی خیال ذاتی مفادات سے مبرا نہیں ہو سکتا ہے۔ محکومی کے باعث بلوچ ہمیشہ ہی تمام قسم کے انتظامی اور قدرتی آفات سے نبرد آزما رہا ہے اور انھی آفات نے ہزاروں افرادکو لقمہ اجل بنایا ہے۔گزشتہ دو ہفتوں میں قدرتی اور انتظامی امتزاج کے باعث بلوچ عوام پر قہر بن کے ٹوٹنے والی آفت نے لسبیلہ کے علاقے وِند ر سے لیکر دریائے گومل تک ہزاروں افراد کو نہ صرف موت کے آغوش میں اتارا بلکہ کئی لاکھ افراد کو آبائی زمینیں چھوڑ کر آئی ڈی پیز کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہے۔اس طرح کے حالات میں سرکار کی غیر سنجیدگی پر حیرت تو نہیں کیا جاسکتا لیکن بلوچ عوام نے جس طرح کیچ سے لیکر دریائے سندھ تک یکجہتی کا مظاہرہ کیا نہایت ہی قابل دید ہے۔
اس آفت زدہ ماحول میں جہاں کوہ سلیمان، گرین بیلٹ اور لسبیلہ سیلابی پانی میں ڈوب چکے ہیں تو بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے بطور بلوچ طلبا تنظیم اپنی تمام تر دیگر سرگرمیوں کو روکتے ہوئے سیلاب متاثرین اور دیگر بلوچ عوام کے درمیان ایک پل کا کردار اد ا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تنظیم نے قومی بنیادوں پر کوئٹہ، تربت، حب، آواران، خضدار اور نال میں امدادی کیمپ لگا کر اس اجتماعی شعور کو عملی شکل دینے کی کوشش کی ہے جو بلوچ قومی روایات اور تاریخ کا بنیادی جُز ہے۔ آج بھی بلوچ عوام نے انھی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ان آفت زدہ اور مشکل حالات میں نہ صرف شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے بلکہ عملی بنیادوں پر کمک کرنے کی جدوجہد کی ہے۔
آج آفت کے اس ماحول میں جہاں لاکھوں عوام بے سرو سامانی کی زندگی گزار رہے ہیں اور مقتدر قوتوں سے مکمل طور پر مایوس ہو چکی ہے تو ہمیں قومی ذمہ داری اور قومی ضرورت سمجھتے ہوئے سیلاب زدہ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہو کر ہر ممکن جدوجہد کرنی چاہیے۔ جب عوام معاشی حوالے سے تباہ ہوچکی ہو، مکانیں زمین بوس ہو چکے ہوں، بچے بوڑھے اور جوان سیلابی ریلوں میں بہہ چکے ہوں اور سیلاب کے بعد وبائی امراض انسانی بحران کا خدشہ منڈلا رہے ہوں تو اس طرح کے حالات میں این جی اوز اور فلاحی طرز سیاست کے حوالے سے ہونے والی مبالغہ آرائی اور اختراعات صرف ابہام کا موجب بن رہی ہے۔انھی مبالغہ آرائیوں کے بنیاد پر اگر ہم نے اس آفت زدہ حالات میں اپنی عوام کو اس غیر سنجیدہ اور بے حس سسٹم کے آسرے پر چھوڑ دیا جن کےلیے بطور قوم ہماری زندگیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں تو آج اگر ہزاروں کی تعداد میں لوگ موت کی آغوش میں اتارے گئے ہیں تو کل یہ تعداد لاکھوں میں تبدیل ہو گی اور آنے والے وقتوں میں اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔
ہم نے بھی بطور طلبا تنظیم اس مہم کا آغاز انسانی اور فلاحی بنیادوں پر نہیں بلکہ قومی بنیادوں پر کی ہے۔ ہم جس نعرے کے پیروکار ہیں وہ “علم و یکجہتی کےلیے جدوجہد” ہے۔ علم وہ جو ہمیں شعور دے اور شعور وہ جو ہمیں یکجاہ کرے اور جب علم ، شعور اور یکجہتی کے بنیاد پر عملی قدامات کی جائیں تو معاشرے کےلیے نئی راہیں متعین کی جاتی ہیں۔ ہم نہ تو بلوچیت کے دعویدار ہیں اور نہ ہی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بلوچیت کے تمام تر پہلوؤں کو مجموعی طور پر اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں بلکہ ہم اپنی بساط کے مطابق بلوچ عوام کو اسی آفتی صو رتحال میں ایک چھوٹی سی کمک کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ان امدادی سرگرمیوں سے نقصانات کا ازالہ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن ہم اپنی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں ٹمٹماتی ہوئی شمع کی مدھم سی شعاؤں کا ایک ایک کرن صرف اُن ہی سے وابستہ ہے۔ آپ ہی نے ہمارے ہاتھوں کو مزید مضبوط کرنا ہے تاکہ ہم اس مدھم شمع کو ایک ایسی روشن صبح میں بدل سکیں جو تمام قسم کے آفت سے پاک خوشحال قومی مستقبل کا ضامن ہو۔

Share To

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *