کتاب: فوکو ریڈر | تبصرہ: ظہیر بلوچ

کتاب تبصرہ
کتاب: فوکو ریڈر
تبصرہ: ظہیر بلوچ

کتاب فوکو ریڈر عظیم مغربی فلاسفر اور مختلف کتابوں کے مصنف مشعل فوکو کے مختلف مضامین کا مجموعہ ہے. اس کتاب کا اردو ترجمہ ملک محمد اکبر نے کیا. 2018 میں یہ کتاب عکس پبلیکیشن لاہور سےشائع کیا گیا ہے.
کتاب پر تبصرے کا آغاز کرنے سے پہلے مشعل فوکو کا مختصر تعارف کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے خیالات کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکے.
مشعل فوکو کا مختصر تعارف:
مشعل فوکو 15 اکتوبر 1926 کو فرانس کے شہر میں پیدا ہوئے. ان کے والد ایک سرجن جبکہ والدہ ایک سرجن کی بیٹی تھی. 1930 سے 1936 تک مقامی اسکول سے تعلیم حاصل کی. 1939 میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو جرمنی نے فرانس پر قبضہ کرلیا تو ان کی ماں نے انہیں دوسرے ادارے میں داخل کیا جہاں انہوں نے تاریخ ادب اور فلاسفی میں بہتر انداز میں پڑھائی کی.
مشعل فوکو 1945 میں پیرس چلے گئے اور فلسفے کی تعلیم کا آغاز کیا. ہیگل اور مارکس کے کام پر مہارت حاصل کرنے والے وجودیت پسند فلاسفر جین ہائپوٹیٹ کے خیالات نے فوکو کو متاثر کیا اور اس نے جان لیا کہ فلسفہ ہمیشہ تاریخ کے مطالعے سے پروان چڑھتا ہے. 1948 میں جنس پرستی اور نشے کی عادت میں محو ہونے کی وجہ سے خود کشی کی ناکام کوشش کی. 1950 میں فوکو نے فرنچ کمیونسٹ پارٹی جوائن کی لیکن خود شناختی مسلے کی وجہ سے غیر فعال نظر آئے جسکی وجہ سے 1953 میں پارٹی کو خیرباد کہہ دیا. فوکو میں نطشے کے اثرات دکھائی دیتے تھے جو پوری زندگی ان کے کام پر چھائے رہے.
فوکو 1955 سے 1960 تک بیرون ممالک رہے، سوئیڈن میں اپسالا یونیورسٹی میں ثقافتی ترقی پر کام کیا.
فوکو کی تھیوریز میں علم اور طاقت کے درمیان تعلق کو بیان کیا گیا ہے. اور یہ بتایا گیا ہے کہ سماجی بندھن کو قائم رکھنے میں کس طرح استعمال ہوسکتے ہیں. ہم جنس پرستی کی لت نے فوکو کو ایڈز میں مبتلا کردیا اور پھر 25 جون 1984 کو ان کا انتقال ہوا.

یہ کتاب دو حصوں اور 429صفحات پر مشتمل ہیں.
جس میں مقدمہ اور تعارف بھی شامل ہے. پہلا حصہ سچ اور طریقہ کار جبکہ دوسرا حصہ افعال و علم پر مشتمل ہے.
کتاب میں مشعل فوکو کے چار انٹرویوز بھی شامل ہے جبکہ مصنف کیا ہے؟ کے عنوان پر ایک مضمون بھی شامل کتاب ہے.

کتاب کے صفحہ نمبر 41 سے لے کر 61 تک تعارف پیش کیا گیا ہے جس میں نوم چومسکی اور مشعل فوکو طاقت کے موضوع پر ایک مباحثے میں سامنے آئے، انسانی فطرت کے متعلق چومسکی کا نظریہ انسانی فطرت کی موجودگی کا سوال کرتا ہے جسے فوکو رد کرتا ہے اور یہ پوچھتا ہے کہ انسانی فطرت کس طرح معاشرے میں کردار ادا کرتی ہے.
دونوں فلاسفر کے طاقت اور انصاف کے متعلق بھی نظریات میں فرق کو بیان کیا گیا ہے.
چومسکی کے خیال میں انصاف کے حصول کے لئے موجودہ زمانے میں ناانصافی کے خلاف کوشش کرنی چاہئیے جبکہ فوکو انصاف کو ایسا خیال تصور کرتا ہے کہ جس کے اثرات اور انداز عمل مختلف معاشروں میں کئی سیاسی اور معاشرتی طاقتوں میں بطور آلہ استعمال ہوتے ہیں. فوکو کہتا ہے انصاف کا تصور کبھی سیاسی کوششوں کی مانگ کے لئے نہیں ہونا چاہئیے بلکہ اس کا بنیادی استعارہ لڑائی ہے نہ کہ گفتگو.
فوکو روشن خیالی کو کانت کے نقطہ نظر سے بتانے کی کوشش کرتا ہے. کانت روشن خیالی کو بیرونی عنصر کا نام دیتا ہے کیونکہ روشن خیالی بلوغت کا عمل ہے اور غیر بلوغت ہمیں لوگوں کے احکامات کی پابند کرتی ہے. کانت کے تین نکات کہ ہم غیر شعوری حالت میں ہیں جب کتاب ہمارے ادراک کی جگہ لے لے. جب کوئی روحانی پیشوا ہمارے ایمان کی جگہ لے لے. جب کوئی طبیب یہ تجویز کریں کہ ہمیں کیا کھانا چاہئیے. ان کو سمجھنا اور انکے ُذریعے سے پہچان کرنا ممکن ہے. کسی بھی صورت میں روشن خیالی کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے کہ نہ پہلے سے موجودہ احکامات سے جڑے ہوئے تعلقات میں تبدیل کرنا اور شعور کا استعمال کرنا شامل ہے.
صفحہ 69
روشن خیالی ایک ایسا جزبہ ہے جس سے ہم اپنے آپکو پہچان سکتے ہیں. اس لحاظ سے روشن خیالی بیک وقت ایک اجتماعی عمل بھی ہے اور انفرادی عمل بھی جس میں انسان اپنے آپکو پہچانتا ہے. انسان ایک ہی عمل میں عناصر بھی ہے اور نمایندے بھی ہیں اور اس عمل کے اداکار بھی ہیں اور یہ عمل ایک خاصی حد تک پہنچ جاتا ہے جبکہ کوئی شخص رضاکارانہ طور پر اس میں کام کرے.
علم اور طاقت کے موضوع پر فوکو کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کے مسائل کے تعلقات سیاسی اور معاشی طور پر اس کے معاشرے کی ساخت سے جڑے ہوتے ہیں. طاقت کے اظہار کو واضح کرنے کے لیے اقتدار اعلی، قانون اور مزاحمت سے ایک نظام بنتا ہے. طاقت جو ہمیشہ بغیر خوف کے موجود رہتا ہے جبکہ علم بغیر دھوکے کے موجود رہتا ہے.
طاقت کو رکاوٹ اور ظلم و ستم کا حامل سمجھا جاتا ہے فوکو کہتا ہے کہ اگر طاقت سوائے ظلم کے کچھ بھی نہ ہو. اگر یہ سوائے انکار کے کچھ بھی نہ ہو کیا آپ سوچتے ہیں کہ کوئی اس کی اطاعت کرے گا؟ کونسی چیز طاقت کو قابل قبول بناتی ہے جب اسکے اندر خوشی، علم اور مقاصد ہونگے.

صفحہ نمبر 90
سچ کے اندر طاقت کے اثرات موجود ہوتے ہیں جو اسے پھیلاتے ہیں.
علم، طاقت، علم الانساب، انسانی فطرت، مصنف کتاب کے پہلے حصے میں فوکو کا موضوع ہے. علم کے کام کو محت مند بنانا اور اسے ممکن بنانا نقطہ آغاز سے ہی ممکن ہے جب آپ کسی کام کا اقدام اٹھاتے ہیں تو ہی وہ ممکن ہوجاتا ہے. علم کبھی اپنے لافانی جڑوں سے خود کو جدا نہیں کرسکتی.
صفحہ نمبر 119 میں کہتے ہیں کہ علم کی خواہش ہمارے اندر تبدیل ہوتی رہتی ہے. ایک ایسے جذبے کے طور پر جس کو کسی قربانی کا خوف نہیں. جو سوائے اپنی مصروفیات کے کسی سے بھی نہیں ڈرتا. انسانیت اپنے علم کے لگاؤ کی وجہ سے آخر کار فنا ہوجائے گی. اگر لگاؤ کی وجہ سے نہ ہوئی تب اپنی کمزوری سے ضرور ہوجائے گی. ہمیں اپنی مرضی کی ریاست تیار کرنی چاہئیے.
مصنف کی تعریف اور کردار کے حوالے سے صفحہ نمبر 129 اور 139 میں کہتے ہیں کہ مصنف وہ ہوتا ہے جو معاشرے میں موجودگی کے اظہار، گھومنے اور کام کرنے کے مطالب کو واضح کرتا ہے. مصنف کینسر کی طرح وبائی امراض کی طرح پھیلتے ہوئے خطرات کو کم کرتا ہے اور ان لائحہ عمل کو متعارف کرواتا ہے کہ جس سے ان کی اہمیت مزید کم ہوجاتی ہے.
کتاب کا دوسرا حصہ طاقت کے ذرائع اور اقسام کے متعلق بحث کرتا ہے. قید خانے، دارالامان، سزا، جیل، جامع نگرانی، نظم و ضبط، وغیرہ، قید نما پہلا گھر جو طاقت کے استعمال کا ذریعہ تھا جنہیں قائم کرنے میں طاقت کا استعمال کیا گیا تھا انگلینڈ میں بنا جو صنعتی لحاظ سے بڑا اہم تھا.
صفحہ نمبر 187 میں کہتے ہیں کہ بیوقوفی، جہالت اور اصولوں کی عدم دستیابی ہمیشہ ناگواری کو جنم دیتے ہیں اور خوف کو پیدا کرتے ہیں اور ظلم و جبر کے زمرے میں آتے ہیں.
روشن خیالی آزادی کو دریافت کرکے نظم و ضبط کو ایجاد کرتی ہے. نظم و ضبط طاقت کی ایک قسم ہے. فوکو کے مطابق نظم و ضبط طاقت کے انداز کو متعارف کرواتا ہے جو تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے، سب سے پہلی صورت طاقت کے استعمال کو کم ترین قیمت پر حاصل کرنا، دوسری صورت سماجی قوت کے اثرات کو لانا اسکی زیادہ سے زیادہ حد تک اور اسے جتنا ممکن ہوسکے وسیع سے وسیع تر کردینا، تیسری صورت یہ ہے کہ اس طاقت کی معاشی افزائش کو اسکے نتائج اور پیداوار سے جوڑنا شامل ہے.
صفحہ نمبر 225
سزا اور جیل جنہیں سیاسی حکمت عملی کے طور پر تصور کرکے مطالعہ کیا جاتا ہے. یہ سوچ کر کہ جیلیں اور سزاؤں سے جرم کا خاتمہ ہوسکتا ہے سزا کو سماجی مظہر اور جیل کو اصلاحی نظام کے تحت مطالعہ کرنا چاہئے، کسی چیز کو روکنے، خارج کرنے یا سرے سے ختم کرنے کے لئے سزا کو استعمال کیا جائے لیکن صرف سزا واحد عنصر نہیں ہے کیونکہ مقصد صرف تشدد یا نظریے کے آلے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ براہ راست جسمانی قوت سے. مقصد ایک بلند تخیل ہے جو نہ ہتھیاروں کا استعمال کرتا ہے نہ تشدد کا مگر ایک جسمانی حکم اور ترتیب کی شکل میں رہتا ہے.

جیلیں جرم کی شرح کو کم کرنے کے بجائے مذید تقویت دیتی ہے یا مختلف شکل میں ظاہر کرتی ہے. فوکو کہتا ہے کہ نا انصافی کو محسوس کرنا بھی قیدیوں کو ان کے وحشی کردار کی طرف لیکر جاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو ان میں مبتلا دیکھتا ہے جن میں نہ قانون کی پیروی شامل ہے نہ خطرات کا مقابلہ کرنے کی ہمت دکھائی دیتی ہے. وہ فطری طور پر اپنے اردگرد موجود ہر چیز سے متنفر نظر آتا ہے اور وہ ہر صاحب اختیار شخص کو جلاد سمجھتا ہے اور اس طرح وہ زیادہ عرصے تک اپنے آپکو مجرم نہیں گردانتا اور اپنے لیے انصاف کی طلب کا اظہار کرتا ہے.
صفحہ نمبر 245
فوکو کے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ علم الاخلاقیات کے طور پر سیاست میں دلچسپی لیتا ہے اور سیاست کو ایک مسلسل خیال سمجھتا ہے. اور جنگ کو سیاسی ترکیب کا تسلسل قرار دیتا ہے. سیاست ایک فوجی نمونہ جو عوامی بے ترتیبی کو روکنے کا ذریعہ ہے لیکن مکمل جنگ نہیں ہے. جدید آدمی کی زندگی کا تعین سیاست ہی کرتی ہے اور ہر تاریخی اور سیاسی واقعے کی جڑیں اسکی ماضی میں پیوست ہے. اٹھارہویں صدی جو طبی سیاست کی صدی تھی اس صدی میں طاقت کے اہم ذرائع میں سے پولیس کو اہمیت حاصل تھی کیونکہ ان ریاستوں کو منظم قرار دیا جاتا تھا جہاں پولیس کا محکمہ منظم ہوتا تھا.
حیاتیاتی سیاست بھی ایک وقت بڑی اہمیت کی حامل تھی. کیونکہ حیاتیاتی موجودگی سیاسی موجودگی کے حوالے سے وجود رکھتی تھی، زندگی کی حقیقت ناممکن طور پر وقت کے ساتھ ظاہر ہوتی رہی جو موت کی باقاعدگی کو ظاہر کرتی ہے.
اس کتاب میں فوکو جنس پرستی اور طاقت اور علم کے رشتے کو واضح کرتا ہے. کیونکہ فوکو کی نظر میں جنسی عمل طاقت کا ایک مثبت پیداواری عنصر ہے کیونکہ طاقت جنسی عمل کے جبر تلے رہی ہے. طاقت کے استعمال کے طریقہ کار میں خونی رشتوں کو بہت عرصے تک اہمیت حاصل تھی.

آبادی کا سیاسی اور معاشی مسلہ مرکزی طور پر جو کہ جنس پرستی تھا.
ریاست اور فرد کے درمیان جنسی عمل ایک مسلہ بن گیا اور ایک عوامی مسلہ بن گیا اور یہ گفتگو کا مکمل جال تھا
فوکو کہتا ہے کہ ایک ملک کو گنجان آباد ہونا چاہئیے اگر وہ امیر اور طاقتور بننا چاہتا ہے لیکن یہ پہلی بار تھا کہ معاشرہ اسکے متعلق دعوی سے کہہ رہا تھا اور ایک مستقل انداز میں اس کی قسمت اور مستقبل اسکے شہریوں کی دیانت داری سے بندھی ہوئی تھی. ان کے ازدواجی اصولوں اور خاندانی تنظیم کے متعلق بندھے ہوئے تھے اور ایسے طریقہ کار سے جس میں ہر فرد اپنے جنسی عمل کا استعمال کرسکتا ہے.
صفحہ نمبر 323
طاقت اور علم کا آپس میں گہرا رشتہ ہے کیونکہ یہ زمہ داری کو ظاہر کرتے ہیں اور کسی حد تک کنٹرول کرتے ہیں اور اسے تبدیل کرتے ہیں. فوکو کے مطابق میرا تعلق ایسی طاقت کے حوالے سے نہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے بلکہ اسکی تمام باریکیوں کو دیکھنے کی فہرست سے متعلق ہے جو ان چیزوں کو سنبھالے ہوئے ہیں.
صفحہ نمبر 394 میں مزید کہتے ہیں کہ طاقت کے تجزیے میں ایک یہ بھی تھا کہ محکومی کے یقینی تصورات کو ظاہر کیا جائے جو کہ شدت کے ساتھ ترتیب وار نہ تھے اور نہ ہی کبھی اس قدر خطرناک رہے ہیں.
کتاب کے صفحہ نمبر 407 سے لیکر 429 تک مختلف اصطلاحات کے معنی اور تعریف کے علاوہ اہم مقامات اور شخصیات کا مختصر تعارف بھی کتاب کا حصہ ہے.

اختتامیہ

طاقت زندگی کے ہر شعبے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے. سیاست، معشیت، ٹیکنالوجی، ہیومین ریسورسس، سماج عرض ہر شعبے میں طاقت کے بغیر کسی بھی ریاست کی ترقی ممکن نہیں ہے. مشعل فوکو کی اس کتاب کو منتخب مضامین کے زریعے یکجا کرکے قارئین کو علم اور طاقت کے رشتے سے نہ صرف آگاہ کیا گیا ہے بلکہ طاقت کے استعمال کے طریقے بھی بیان کئے گئے ہیں، فوکو کے انٹریوز، فوکو کے نظریات، سیاسیات اور اخلاقیات میں دلچسپی، جنس پرستی اور دیگر موضوعات کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میں قارئین کے لیے بیش بہا خزانے موجود ہے.
اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ حق کی تلاش ایک مزاحمت کے طور پر ہوتا ہے، نظام جتنی بھی پر تشدد ہو اس میں مزاحمت کے امکانات موجود ہوتے ہیں. جو لوگ سوال کرتے ہیں وہ اپنے حق کا استعمال کرتے ہیں. طاقت کی نئی تکنیک کو سمجھنے کے لیے فوکو تجویز دیتا ہے کہ شخص کو ذہنیت اور رویے کے لحاظ سے لینا چاہئیے.
اگر سیاست کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سیاست کے اندرونی شئے ہی طاقت کی وجہ ہوتی ہے اور سیاست کسی بھی ریاست کے اور عوام کے مفاد کے لئے کی جاتی ہے جب کسی انسان کو آزادی دی جاتی ہے تو وہ سکون اور خوشحالی سے زندگی بسر کرتا ہے لیکن جب ان کی آزادی سلب کی جائے تو وہ بے قابو ہوجاتے ہیں اس لیے فوکو کہتا ہے کہ آزادی کے ضامن کے طور پر آزادی کی ضامن صرف آزادی ہی ہوسکتی ہے.
فوکو انصاف کے حصول کے لیے مزاحمت کو ترجیح دیتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ انصاف مزاحمت اور لڑائی سے ہی حاصل ہوتی ہے.
سیاست سے دلچسپی لینے والے طالب علم اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین کتاب ہے.

Share To

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *