نو آبادیات و مابعد نو آبادیات

نو آبادیات و مابعد نو آبادیات
(نظریہ، تاریخ، اطلاق)
تبصرہ: ظہیر بلوچ

عکس پبلشرز لاہور سے 2019 میں اشاعت ہونے والی کتاب کی تحقیق و ترتیب جناب عامر سہیل کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جنہوں نےمختلف کتابیات اور مقالات کا مطالعہ کرکے انہیں ترتیب دیا اور ایک کتابی شکل میں قاری کے سامنے پیش کیا.
اس کتاب میں کل 568 صفحات ہیں جس میں ابتدائیہ اور مقدمہ بھی پیش کیا گیا ہے. کتاب تین باب(نظریہ، تاریخ اور اطلاق میںتقسیم ہے، نظریہ مذید دوحصوں میں تقسیم ہے جنہیں فصل اول اور دوئم کا نام دیا گیا ہے. باب اؤل نظریہ صفحہ نمبر اکتالیس سےشروع ہو کر 152 پر ختم ہوجاتی ہے جس میں مختلف حوالہ جات بھی شامل ہے جبکہ باب دوئم تاریخ بھی دو حصوں میں تقسیم ہےجو صفحہ نمبر 157 سے شروع ہو کر 204 پر ختم ہوجاتی ہے جس میں حوالہ جات بھی شامل ہے جبکہ باب سویم اطلاق صفحہ نمبر209 سے شروع ہو کر 530 پر ختم ہوجاتی ہے چار حصوں میں تقسیم ہے جبکہ باب چہارم میں مابعد نو آبادیات کے بنیاد گزاروں کاذکر شامل ہے اسکے علاوہ مابعد نو آبادیات کی اہم اصطلاحات بھی اس کتاب کا حصہ ہے. صفحہ نمبر 554 سے 568 تک مختلفانگریزی اور اردو کتابیات اور مقالات کے نام بمعہ مصنف اس کتاب میں شامل ہے.
نو آبادیات کے نظریے کو بیان کرنے سے پہلے ڈاکٹر مبارک علی کے مضمون میں نظریہ کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے کہ خیالات وافکار اور عقائد کا وہ نظام ہے جو ایک خاص سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کو صیح اور درست تسلیم کرتا ہے، ساتھ ہی وہ انخیالات و عقائد کی مخالفت کرتا ہے جو اس سے متضاد ہو. آئیڈیالوجی اپنے بنیادی نظریات کو پس پردہ رکھتی ہے اور ایسےمنصوبوں کو سامنے لاتی ہے کہ جو بظاہر غیر جانبدار معلوم ہوتے ہیں مگر در پردہ وہ اس کے بنیادی مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں.
صفحہ نمبر 41
نظریہ کیا ہوتا ہے اور اس نظریہ کا اطلاق کرنے کے لئے ایک ایسے نظام کا سہارا لیا جاتا ہے جو طاقت، دھونس و دھمکی اورسامراجی عیاریوں کے ذریعے مظلوم اقوام کی سر زمین، ان کی تاریخ اور ان کی تہذیب کو مسخ کردیتی ہے اس نظام کا نام نوآبادیاتی نظام ہے.
ناصر عباس نئیر نے مقدمہ میں نو آبادیاتی نظام کے پس منظر کے بارے میں کہا ہے کہ قدیم نو آبادیاتی دور حضرت عیسی کی آمدسے قبل ہی منظر عام پر آگیا تھا جب بحیرہ روم میں نو آبادیات کا عمل شروع ہوا. فونقیوں نے چین کو نو آبادی بنایا جبکہ یونانیوں نےایشیائے کوچک اور ڈوریائی نسل نے اٹلی کو نو آبادی بنایا. سکندر اعظم کے بعد روم سامراج کی شکل میں سامنے آیا اسکے بعداسلام کا دور شروع ہوا جس نے یورپ کے ممالک سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی آبادیاں قائم کیں.
سیاح مارکوپولو کا سفر مشرق اور مشرقی خوشحالی کا ذکر اور یورپ میں روشن خیالی کی تحریک ایجادات نے یورپ کو عروج بخشااور یوں قدیم نو آبادیاتی دور اپنے اختتام کو پہنچا اور ایک نیا نو آبادیاتی دور شروع ہوا جو 16 ویں صدی سے 20 ویں صدی تکجاری رہا.
یورپی نو آبادیاتی دور کے بعد امریکہ نے جدید نو آبادیاتی دور کا آغاز کیا جس میں ملکوں کو سیاسی آزادی تو نصیب تھی لیکنمعاشی اور ثقافتی طور پر وہ آزاد نہ ہوسکے.
یہ کتاب ہندوستان میں نو آبادیاتی نظام کی ابتداء، ہندوستان کی آزادی اور اسکے بعد مابعد نو آبادیات کے انڈیا اور پاکستان کے ادبپر اثرات کے متعلق لکھی گئی ہے.
اس کتاب میں نو آبادیات کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہے ان تعریفوں کی روشنی میں ہم نو آبادیاتی نظام اور پس نو آبادیاتینظام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس نظام کو برقرار رکھنے کے لیے سامراج کے کردار کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیںجو اس کتاب کا اہم حصہ ہے
نو آبادیات کا لفظ آبادی سے نکلا ہے جسکے لغوی معنی نئی آبادی یا نئی بستی، کالونی کا لفظ بنیادی طور پر لاطینی اصطلاح سےنکلا ہے جس سے مراد کچھ منظم افراد کا کسی دوسرے انسانی آبادی کو یرغمال بنا کر اسکے استحصال کے لئے وہاں اپنی نو آبادیاںقائم کرنا ہے.
اس اصطلاح کو سب سے پہلے رومیوں نے استعمال کیا. وہ جب کسی علاقے پر قبضہ کرتے تو وہاں اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیےاپنے افراد پر مشتمل نئی آبادیاں قائم کرلیتے تھے. آج کل یہ غیر ملکی اقتدار و تسلط کے لئے استعمال کی جاتی ہے.
نو آبادیاتی نظام کی مختلف تعریفیں کتاب میں درج ہے جن کو بیان کرنے سے نو آبادیات کو سمجھنے میں آسانی ہوگی.
ایک نئے علاقے میں آبادکاری، افراد کا گروہ جو ایک نئی جگہ پر سکونت اختیار کرے اور ایسی قومیت تشکیل پائے جو خالص آبادکاروں اور ان کی آئندہ نسلوں اور جانشینوں پر مشتمل ہو اور ان سب کا تعلق اپنی آبائی ریاست کے ساتھ قائم رہے۔
بہت سی یورپی طاقتوں نے اپنی آبائی ریاستوں کے معاشی اور عسکری فوائد کے لئے یورپ سے باہر جو سکونت اختیار کی ہے اسےنو آبادیات کہا جائے گا.
ان دو تعریفوں میں نہ مغلوب قوموں پر قبضے کا ذکر ہے اور نہ ہی محکومی کا بیان ہے جس سے یہ تاثر پیدا کیا گیا ہے کہ دنیا میںکسی جگہ آباد ہونا مغرب کا وراثتی حق ہے.
صفحہ نمبر 145
نو آبادیات ایک ایسا نظام ہے جس میں ایک طاقتور ملک کمزور ریاست پر براہ راست اپنا عسکری تسلط قائم کرتا ہے اور پھر عسکریقوت کے ذریعے مقامی معاشرت کو نئے سیاسی، معاشی اور ثقافتی رنگ میں ڈھالا جاتا ہے.
کسی غیر ملکی طاقت کا اپنی سرحدی حدود سے باہر، دوسری اقوام کے اقتدار کو ختم کرنا اور وہاں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا اورمقامی لوگوں کے حقوق و وسائل کا استحصال کرکے اپنے آبائی وطن کو معاشی طور پر مضبوط کرنا نو آبادیات کہلاتا ہے.
صفحہ 146
ایک ایسا سیاسی، معاشی اور ثقافتی نظام ہے جس میں ایک ملک ٹیکنالوجی، علم اور فوجی طاقت کی بنیاد پر دوسرے ملک کو ہرسطح سے مغلوب کرنے کی کوشش کرتا ہے جس میں غالب ملک کو ہر سطح پر فائدہ میسر آئے. ایک ملک اپنے جغرافیائی حدود سے نکلکر دوسرے ملک کی جغرافیائی حدود میں عملآآ داخل ہو کر وہاں کے باشندوں کو مختلف حکمت عملیوں سے مغلوب کرتا ہے.
صفحہ نمبر 15
اس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام دوسرے افراد کی سرزمین اور اشیاء پر قبضہ و کنٹرول کرنے کے عمل سے تعبیر ہے. اس تسلط کے بغیر یورپ شاید سرمایہ داری کی ابتداء نہ کرسکتا.
نو آبادیاتی نظام کو مسلط کرنے کے بعد سامراجی ملکوں نے ایسی پالیسیاں تشکیل دی جس سے مغلوب قوم کو طاقت، تہذیبی برتریاور دیگر ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے ان کے فخر اور اعتماد کو کچل دیاگیا. نو آبادیاتی نظام میں علم کا مقصد طاقت کا حصولاور دوسروں پر تسلط قائم کرنا ہوتا ہے. طاقت اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کرتی بلکہ اس کا اولین مقصد حصول دولت واقتدارہےاس لئے غالب ریاست علم کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے تاکہ اس کا اقتدار محفوظ رہے.
جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوا تو اس کا ترقی کے نظریہ کی بنیاد الہی مشن اور تہذہبی برتری پر تھی.
انگریز نے انہی مشن کی بنیاد پر ہندوہستانیوں کو اپنی تاریخ اور ثقافت سے دور رکھا اور یہ دلیل دی کہ ان کا معاشرہ جامد ہے، انکی کوئی تاریخ نہیں اس لئے انہیں سرپرستی اور نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ وہ غلامی کی دلدل سے نکل جائے. انگریزوں نے سبسے پہلے شرق شناسی کا بغور مطالعہ کیا تاکہ اسکی بنیاد پر ان کے معاشرے کو پرکھ کر کوئی رائے قائم کی جائے.
انگریزی ادب کے ذریعے عیسائیت کی تبلیغ کے لئے راستہ ہموار کیا.
صفحہ 63
نو آبادیاتی نظام میں آئیڈیالوجی اور ڈسکورس کو تاریخی اور فطری صداقتیں بنا کر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ یہ سماجی اورسیاسی ہوتے ہیں. آئیڈیالوجی اور ڈسکورس کے ذریعے نو آباد کار اپنے تسلط کو استحکام دینے کی کوشش کرتا ہے. سیاسی اورسماجی حوالے سے انہیں وقت کی سب سے بڑی سچائی بنا کر پیش کرتا ہے.
سامراج کو تجربہ گاہوں اور وسائل کی ضرورت تھی اور ان کے تحفظ کے لئے اپنے طاقت کو استعمال کیا بقول ناصر عباس نئیر
‘طاقت کو پیدا کیا جاتا ہے، اسے اجاگر کیا جاتا ہے، اسکی نشر و اشاعت کی جاتی ہے یہ مددگار و معاون ہے، ترغیب دہ ہے، اسکیحیثیت و مرتبہ ہے، یہ ذوق اور قدر کے معیارات قائم کرتی ہے، طاقت کو فی الحقیقت نہ تو ان بعض خیالات سے ممیز کیا جاسکتا ہےجنہیں یہ سچ کی حرمت عطا کرتی ہے.اور نہ اس روایتوں، ادراکات اور محاکموں سے جنہیں یہ تشکیل دیتی، ترسیل کرتی اور از سرنوتشکیل دیتی ہے.
113
جوں جوں نو آبادکار کی طاقت بڑھتی جاتی ہے مقامی لوگوں کی طاقت کم ہوتی جاتی ہے. وہ اپنے دفاتر اور چھاونیوں کو الگ رکھتاہے اور مقامیوں کو ان کے قریب پھٹکنے کی سختی سے ممانعت ہوتی ہے. نو آبادکار مقامیوں کو اپنے جیسا انسان نہیں سمجھتا بلکہانہیں اور ان کی تہذیب و ثقافت کو خود سے کمتر قرار دیتا ہے ان کی زبان کو برابری کا درجہ نہیں دیا جاتا.
کتاب کے پہلے باب میں مابعد نو آبادیاتی صورتحال کا بھی ذکر گیا گیا ہے کہ جب نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد ہندوستان میںبھارت اور پاکستان وجود میں آئے تو اس وقت امریکہ ایک طاقت کی شکل میں نمودار ہوا. امریکہ نے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کیجگہ لی اورنو آبادیات کا ایک جدید نظام رائج کیا کیونکہ اس کے لیے لازم تھا کہ محکوم ممالک کے سیاسی، معاشی اور بہتر سماجیڈھانچے کے لیے اہم تبدیلیاں لائی جائے جیسا پاکستان میں مارشل لاء کی خدمات سے استفادہ کیا گیا امریکہ یورپ نے جمہوریت اورانسانی حقوق کے نام پر تہذیبی جارحیت کو قائم کیاَ۔ گلوبلائزیشن کے ذریعے ہندوستان کے کلچر کو تباہی کے دھانے پر پہنچایا گیا.
ہندو مذہب میں بنیادی طور پر تشدد کا عنصر نہیں لیکن گلوبلائزیشن اور سیاست کے پردے میں آج ہندو مذہب جارحانہ تشدد کیعلامت بن چکا ہے.
81
نو آبادیاتی دور یا اس سے قبل برصغیر میں ہندو، مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے دشمن نہیں تھے جتنا آج ہے
طاہر کامران اسکی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں سماجی علوم اور علوم انسانی کے ذریعے پاکستانی تشخص کی تشکیل کاموضوع زیر بحث لایا جاتا ہے تو دیگر مابعد نو آبادیاتی سماجوں کے برعکس ہندوؤں کو دوسرا قرار دیا جاتا ہے.
صفحہ 54
پس نو آبادیات سیاسی معاشی آزادی اور سول رائٹس کا تحفظ چاہتی ہے اور اس میں سیاسی جانب داریوں کی توجہیہ اور تعبیرنہیں چاہتی اور گلوبلائزیشن کے ذریعے ملٹی مارکیٹ سسٹم اور نئی ادبی تھیوریز کے ذریعے ذہن اور کلچر کو اپنے حلقہ اثر میں لےرہی ہے.
مابعد نو آبادیات میں آزادی اور حقوق کا صرف بیانیہ تبدیل ہوا ہے عام آدمی کی زندگی میں خاص تبدیلی پیدا نہیں ہوئی.
مابعد نو آبادیات میں ورلڈ بینک کے ذریعے محکوم اقوام کا معاشی استحصال اب بھی کیا جارہا ہے.
عالمگیریت، ملٹی نیشنلز کا وہ اقتصادی ایجنڈا ہے جس کی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعہ سے نکیل ڈال کر اقوام عالم کواقتصادی لحاظ سے محکوم بنایا جاتا ہے. ماضی کی مانند قوموں کو سیاسی طور پر محکوم بنانے کا قدیم طریقہ متروک قرار پایا تو،اب اصل قوت اسلحہ کی نہیں بلکہ ذر کی ہے جس سے اسلحہ خریدا جاتا ہے.
135
کتاب کا دوسرا حصہ تاریخ کے متعلق ہے جسے دو باب میں تقسیم کیا گیا ہے.
تاریخ کے حصہ اول میں نو آبادیاتی نظام کا بین الاقوامی منظر نامہ پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح ساتویں صدی میں عرب اسلامی لہراٹھی اور ہزار سال مختلف ممالک میں فتوحات کے پہنچے گاڑھتے ہوئے 1683 میں مکمل زوال کا شکار ہوگئی جس کے اثرات زوالبغداد کے وقت سے ہی نظر آنے شروع ہوئے. جب یورپ ترقی کررہا تھا تو مسلمان نشہ عروج میں مست تھے جس کی وجہ سے مغربکی کالونیوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے
آہستہ آہستہ اس قبضے کے خلاف اسلامی تحریکیں شروع ہوئی اگر چہ یہ تحریکیں قدامت پسند تھی لیکن جدید اسلام میں زندگیکی پہلی دھڑکن تھی بیشتر مسلمان مغرب کے جدید خیالات سے متاثر تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں دو گروہ وجود میں آئے.
اس طرح مسلمانوں کے زیر اثر جدیدت اور قدامت پسندی سے وابستہ دو گروہ وجود میں آئے اور مسلمانوں میں قدامت اور جدیدت کیکشمکش شروع ہوئی لیکن جہاں تک نو آبادیاتی طاقتوں کے خلاف جدوجہد کا تعلق ہے تو دونوں گروہوں نے اپنے اپنے انداز میں اسلامکے دینی و علاقائی دفاع میں مغرب اور روس کی نو آبادیاتی طاقتوں کے بیرونی استعمار کے خلاف عملی جدوجہد میں حصہ لیا.
صفحہ 160
مسلمانوں اور عیسائیوں میں صلیبی جنگیں بھی ہوئی اس وقت مغرب میں نئے نظریات جنم لے رہے تھے فلاحی ریاست کے نئے طرزفکر نے تدریجی اصطلاحات کے ذریعے بڑی بڑی تبدیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی
باب تاریخ کے فصل دوئم میں اس بات کا ذکر ہے کہ کس طرح پرتگیزی اور ولندیزی اور انگریز تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے اورمختلف آپسی جنگوں اور ہندوہستانیوں کے ساتھ جنگیں میں فتح یاب ہو کر ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ ہندوستان کے قسمت کی مالکبن گئی اور 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریز سرکار نے ہندوستان کو اپنی نو آبادیات بنایا اور اپنی پالیسیاں مرتبکرکے انہیں پسماندہ ظاہر کیا اور اپنے تہذہبی مشن کی بنیاد پر انکےکلچر کو مسخ کرتے رہے. بالآخر 14 اور 15 اگست کی درمیانیشب ہندوستان کو دو الگ مملکتوں میں تقسیم کیا.
تاریخ کے باب کے فصل دوئم کے دوسرے مقالے میں یورپ و ہندوستانی تہذیبوں کے عروج زوال کا تقابل پیش کیا گیا ہے اس حصے میںدونوں تہذیبوں کے سیاسی سماجی اور معاشی ارتقا ء کا جائزہ لیا گیا ہے.
کتاب کا تیسرا باب چار حصوں میں تقسیم ہے جس میں مابعد نو آبادیاتی مطالعہ اور مابعد نو آبادیاتی تنقید کے متعلق لکھا گیا ہے.
جب نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا تو مقامی باشندہ دو ثقافتوں، دو تہذیبوں اور دو شناختوں کے درمیان پھنس کر رہ گیا تھا کیونکہ نوآبادیاتی دور نے مقامی باشندوں کی ثقافت کو کمتر ظاہر کرکے انہیں جاہل، وحشی اور بدتہذیب قرار دیا تھا جبکہ اسی دور میں کئیگروہ پیدا ہوئے جن میں مزاحمت کار، مفاہمت کار، معاون کار اور دوجذبیت کا رویہ قابل ذکر ہے جنہوں نے نو آبادکار کی مرضی ومنشاء کے مطابق مقامی ادب اور مقامی ثقافت کو کمتر ظاہر کیا اور نو آبادکار سے متاثر ہوئے.
ان ابواب میں مابعد نو آبادیاتی مطالعہ اور مابعد نو آبادیاتی تنقید پر بحث کیا گیا ہے کیونکہ نو آبادیاتی مطالعہ مقامی باشندے کواپنی ثقافت، اپنی شناخت، اپنی اقدار اور تہذیب کی طرف پکار رہا ہے. جبکہ نو آبادیاتی تنقید کے ذریعے مقامی بیانئے کو شناختعطا کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے.
کتاب کے باب چہارم میں مابعد نو آبادیات کے بنیاد گزار فرانز فینن، ایڈورڈ سعید، گائیتری چکرورتی اسپی وک اور ہومی کے بھابھا کےحالات زندگی، ان کی تصانیف پر مختصر نظر ڈالی گئی ہے۔
اس کے علاوہ نو آبادیات، مابعد نوآبادیات،مابعد نو آبادیاتی تنقید،نو آبادیاتی تمدن، نیٹوز، یورپی مرکزیت، سامراجیت، اساطیریتصویر، مابعد نو آبادیاتی فکر، رد نو آبادیات، نو آبادیاتی بیگانگی، رد نو آبادیاتی تنقید، نو آبادیاتی جاگیرداری، نو آبادیاتی سرمایہداری اور نیا نو آبادیاتی نظام کے اصطلاح کی مختصر تعریف بیان کی گئی ہے.
کتاب نو آبادیات و مابعد نو آبادیات نو آبادیاتی نظام سے متاثر ممالک اور اقوام کے لئے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کتابمیں نو آبادیاتی نظام اور جدید نو آبادیاتی نظام کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے. اسکے علاوہ اس کتاب میں نو آبادیاتی نظام نےجو ادب تخلیق کی وہ ادب مقامی آبادی کی تاریخ کو مسخ کرکے دی جس کے لئے استعمار زدہ عوام کو چاہئیے کہ وہ اپنی تاریخ، اورادب کا مطالعہ مابعد نو آبادیاتی تنقید کے ذریعے کریں تاکہ اسے یہ بات سمجھ آسکیں کہ کس طرح سامراج نے اسے قومی شناختسے محروم رکھا.
باب سوئم اطلاق میں کئی جگہ اس بات کا تاثر دیا گیا کہ مسلمان ایک قوم کی حیثیت رکھتا ہے حالانکہ اسلام ایک دین ہے جس میںکئی اقوام کے لوگ شامل ہے لیکن اسلام کو قومیت کے سانچے میں ڈالنا سمجھ سے باہر ہے.

Share To

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *