تنظیمی تشہیر،لیڈرشپ تشہیر، ذاتی تشہیر: سنگت آصف بلوچ

تنظیمی تشہیر،لیڈرشپ تشہیر، ذاتی تشہیر
سنگت آصف بلوچ
(مرکزی ورکنگ کمیٹی ممبر۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی)

کسی بھی سماجی، فکری یا کہ نظریاتی منظم گروہ کا ٰیکجا ہو کر کسی خاص “مقصد” کی تکمیل کے لیے جد وجہد کرنا تنظیم کہلاتی ہے۔بعض محققین اور فلاسفرز کے مطابق انسانی ارتقا سے لیکر آج تک فرد خود اپنے وجود میں کچھ بھی نہیں ہے جبکہ معاشرہ، سماج یا اجتماع ہی حقیقت میں وجود رکھتی ہیں اور اجتماع کے بغیر فرد کا وجود ناممکن ہے لہذا لفظ سماج یا اجتماع خود ایک گروہ کا ہی نام ہے جسے اگر تنظیمی بنیادوں پر پرکھا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ تنظیموں کے تاریخی پہلو پر نظر دوڑائی جائے تو تنظیمیں ازل سے قبائلی،سیاسی،معاشی،شاہی،مذہبی اور قومی بنیادوں پر وجود رکھتی رہی ہیں۔ جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ تنظیموں کی تشکیل کا بنیادی محرک مخصوص” مقصد” کی تکمیل کے لیے جدوجہد ہوتی ہے لہذا تنظیموں اور اُن کے ارکان کیلیے تنظیم کے بجائے وہ مقصد مقدس بن جاتی ہے جس کیلیے جدوجہد جاری ہوتی ہے کیونکہ تنظیمیں اور اُن کی پالیسیوں کا معروضی حقائق کی بنیادوں پر تبدیلی کا عنصر ہمیشہ سے وجود رکھتا رہاہے جبکہ “مقصد” اٹل ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی تحریک میں بطور اساس کے متحرک تنظیم کیلیے “مقصد” مقدس بن جاتی ہے۔تنظیمیں ہمیشہ منظم اور Hierarichal بنیادوں پر کام کرتی ہیں اورتنظیموں میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے اور طاقت کو بڑے سے چھوٹے لیول تک منتقلی کیلیے تنظیم کے اندر مختلف اداروں اور کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں جو تنظیمی معاملات کو احسن طریقے سے سرانجام پہنچانے کا مجاز ہوتے ہیں۔تنظیمی Hierarchy میں سب سے بالاادارے کے اراکین کو تنظیمی رہنما یا کہ تنظیمی ترجمان گردانا جاتا ہے جسے عام تلفظ میں تنظیمی لیڈرشپ بھی کہتے ہیں۔تنظیمی لیڈرشپ کی جانب سے اراکین کی آراء اور معروضی حالات کو ذہن نشین رکھ کر متفقہ رائے دہی سے تنظیمی پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں اور تمام کارکن اُن پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا مجاز ہوتے ہیں۔ کارکن کسی بھی تنظیم کے بنیادی اکائی کے حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ تنظیموں کی ترویج اور ترقی میں کارکنوں کا کردار نہایت ہی اہم رہا ہے۔
کسی بھی تنظیم،اُس کے اراکین اور رہنماؤں کیلیے بعد از مقصد سب سے مقدس چیز تنظیم اور اُس کی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ تحریکوں میں تنظیمیں آلے اور ہتھیار کا کردار سر انجام دیتی ہیں جو ہم فکر اور با صلاحیت افراد کو ایک گروہ میں پرو کر جدو جہد اور تحریک کو مزید توانائی بخشتی ہیں۔انھی خصوصیات اور افادیت کے پیش نظر تمام تحریکوں کے سرکردہ رہنماؤں اور تحریکی Intelligensia کے اولین ترجیحات میں منظم اور سائنسی بنیادوں پر نظریاتی اور فکری تنظیموں کی تشکیل رہی ہے کیونکہ یہیں وہ تنظیمیں ہوتی ہیں جو منزل اور مقصد کا تعین کرکے جدوجہد کو سمت فراہم کرتی ہیں۔کسی بھی تحریک اور جدوجہد کیلیے بیک وقت ایک سے زائد تنظیمیں کام کرسکتی ہیں جن میں مقصد کے حصول کیلیے لائحہ عمل میں اختلاف جبکہ مقصد ایک ہوتا ہے۔لہذا کسی بھی مقصد کے حصول اور دیر پا جدوجہد کیلیے تنظیموں کی تشکیل لازمی امر بن جاتا ہے اور بغیر کسی تنظیم یا تنظیمی ڈھانچے کے مخصوص مقصد کیلیے افراد کی جدوجہد “بے مہار گھوڑے کی سواری”جیسی مصداق کے مترادف ہے۔چنانچہ انقلابی تنظیموں کا بنیادی محور اُس کی عوام ہوتی ہے کیونکہ عوام ہی وہ خواص ہے جہاں سے تنظیمیں رُدوم لیتی ہیں۔ اسی سلسلے میں عوامی حمایت کسی بھی انقلابی تنظیم کیلیے اشد ضروری ہوتا ہے اور عوامی حمایت کے بغیر انقلابی تنظیمیں تحریکوں میں متحرک کردار کے بجائے ساکن حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ عوامی حمایت حاصل کرنے کیلیے تنظیمی تشہیر موثر کردار ادا کرتی ہے جس کیلیے تنظیمیں تشہیری پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں اور اُن پر عمل پیرا ہو کر عوامی حمایت کے حصول کیلیے جدوجہد کرتی ہیں۔
تنظیمی تشہیر کی افادیت اور چندمسلمہ اصولیں
"دُشمن کو فریب دینے کی خاطر،عوام کیساتھ ریاکاری برتنا ایک احمقانہ اور کوتاہ بین پالیسی ہے۔ عوام ہمیشہ سچائی چاہتی ہے اور اس سے زیادہ تباہ کن اور کوئی بات نہیں کہ اُن کیساتھ شریفانہ ، پیٹی بورژوانہ جھوٹ بولا جائے" لینن(نیلی نوٹ بُک)
جس طرح انقلاب عوام کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہے اسی طرح انقلابی تنظیمیں بھی عوام اور مختلف عوامی طبقات کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ انقلابی تنظیموں کی محور اپنے عوام کے گرد ہی گھومتی ہے کیونکہ عوام ہی وہ واحد اثاثہ ہے جسے تحریک اور جدوجہد کا حقیقی والی اور وارث گردانا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوامی حمایت کے حصول اور عوامی اعتماد کی بحالی کیساتھ ساتھ اپنی موقف کو عوام تک موثر انداز تک پہنچانے کیلیے تنظیمی تشہیر نہایت ہی اہم ہوتا ہے۔ انقلابی تنظیموں کی سرگرمیوں پر اگر ظائرانہ نظر دوڑٖائی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انقلابی تنظیمیں شروع ہی سے تنظیمی تشہیر کیلیے ریلی،جلسہ جلوس، پمفلٹنگ اور رسالہ جات کا سہارا لیتی رہی ہیں جبکہ جدید Proganda Tools چند نئی اشکال میں وقوع پذیر ہوئی ہیں جن کا ذکر آگے جا کر کیا جائے گا۔تنظیمی ارکان کیجانب سے تنظیمی تشہیر کیلیے سر دھڑ کی بازی لگا کر جان جوکھوں میں ڈالناجبکہ بعض اوقات کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا تنظیمی تشہیر کے افادیت کی واضح دلیل ہے جسے تمام انقلابی تنظیمیں ازل سے اپناتی آئی ہیں۔
انقلابی تنظیموں کی تشکیل اور متحرک ہونے کیساتھ ہی سامراج نواز ردانقلابی فلاحی،سیاسی اور خیراتی تنظیمیں تسلسل کیساتھ جنم لیتی ہیں اور عوام میں انقلابی تنظیموں کی مقبولیت اور پذیرائی کو کم کرنے کیلیے ایک سپیس کا متلاشی رہتے ہیں۔رد انقلابی قوتیں عوامی حلقوں میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلیے انقلابی تنظیموں کیخلاف پروپیگنڈہ اور اپنی تشہیر کرتی ہیں جس کیلیے اُنکے پاس بے تحاشہ وسائل ہوتے ہیں جن کا اجراء سرکار یا سامراج کیجانب سے ہوتاہے۔ انھی وسائل کے بل بوتے پر ردِ انقلابی تنظیمیں عام عوام کو مختلف غیر ضروری اور فضول فلاحی یا کہ خیراتی سرگرمیوں کیساتھ Engage کرتا ہے۔ ایسے تمام عوامل کی موجودگی اور ردِ انقلابی قوتوں کا تسلسل کیساتھ زور پکڑنا انقلابی تنظیموں کیلیے نہایت ہی تشویشناک ہے جس کیلیے انقلابی تنظیموں کے نمائندگان کا عوام میں موجود ہونا اور اپنے موقف کو وسیع بنیادوں پر propagate کرنے کیلیے تنظیمی تشہیر نہایت ہی ضروری ہے۔جس طرح عوام انقلابی تنظیموں کی بنیادی اکائی کے حیثیت سے جانے جاتے ہیں اسی طرح انقلابی تنظیموں کے نمائندگان کا عوام میں موجود ہونا اور عوامی معاملات پر نظر رکھنا نہایت ہی ضروری ہوتا ہے۔ انقلابی قوتوں کی عوام میں غیر موجودگی کی صورت میں ٖردانقلابی قوتیں عوام میں Penetrate کرجاتی ہیں اور معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر بے راہ روی کا شکار کرتی ہیں۔معاشرے کی پستی اور زوال انقلابی تنظیموں کی زوال اور عوامی حمایت کے محرومی کی سبب بن جاتی ہے جو انقلابی اور عوامی تحریکوں کیلیے نہایت ہی تشویشناک ہوتی ہے۔لہذا انقلابی تنظیموں کیلیے ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ شروع دن سے عوامی معاملات کے ساتھ جُڑے رہیں،عوام اور خود کے درمیان کسی بھی قسم کے خلا کو پُر کرنے کیلیے ترجیحی بنیادوں پر عملی اقدامات کو یقینی بنائیں اور عوام میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کیلیے تنظیمی تشہیر کو تسلسل کیساتھ محکم بنائیں اور اس مقصد کیلیے کسی بھی تشہیری tool کے استعمال سے گریز نہ کریں۔
تنظیمی تشہیر کی افادیت کے پیش نظر انقلابی تنظیمیں تشہیر کو ترجیہی بنیادوں پر عملی جامہ پہنچاتی رہی ہیں۔ انقلابی تنظیموں کیلیے تشہیر چند مسلمہ اصولوں پر قائم ہے جن کو بنیاد بنا کر تشہیری پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
۱۔ تنظیمی تشہیر کے سلسلے میں عوامی املاک اور عوامی مفادات میں نقصان کا عنصر نہ ہو اور ایسا ہونے کی صورت میں منفی تشہیری اثرات مرتب ہوں گے جو تنظیموں اور تحریکوں کیلیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔
۲۔ تنظیمی تشہیرکسی بھی صورت میں ایک ہی مقصد کیلیے سرگرم دوسری انقلابی تنظیموں کیخلاف نہ ہو۔ تنظیمی تشہیر کا بنیادی محور جدوجہد کے گرد گھومتی ہے جس کا بنیادی اکائی عوام ہوتی ہے اسی لیے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلیے دوسری تنظیموں کیخلاف تشہیر عوام میں مایوسی اور جدوجہد سے روگردانی کی صورت پرمنتج ہوتی ہے جو کسی بھی تحریک کیلیے نہایت ہی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ لہذا تنظیمی تشہیر میں دوسری ہم مقصد انقلابی تنطیموں کیخلاف تشہیر سے ہرگز گریز کرنا چاہیے۔
۳۔ تنظیمی تشہیری مواد میں دوسری انقلابی تنظیموں کیخلاف کینہ، بغض اور تعصب کا عنصر بالکل نہ ہو اور ایسا ہونے کی صورت میں تنظیمی اراکین جدوجہد کیبجائے ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہوجاتے ہیں جو اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مارنے جیسے مصداق کے مترادف ہے۔ ایسی صورتحال میں تنظیموں اور اراکین کی توجہ مقصد اور جدوجہد سے ہٹ جاتی ہے جس کا خمیازہ تحریک میں جمود کے شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔
۴۔ تنظیمی تشہیر میں تنظیم کے حقیقی لیکن مثبت پہلووں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ جس طرح مذکورہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے کہ تنظیمی تشہیر کا بنیادی محور عوام ہوتی ہے اس لیے عوامی مزاج کو سمجھ کر ہی تشہیری مہمات کو عملی شکل دیا جا سکتا ہے۔ تنظیمی تشہیر میں منفی پہلووں کے اجاگر کرنے کے اثرات عوام میں مایوسی اور تحریک سے دوری میں منتج ہوتی ہیں۔ لہذا انقلابی تنظیموں کو پروپیگنڈہ کے دوران اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں پر نظر رکھنی چاہیے۔
۵۔ تنظیمی تشہیر ہمیشہ معروضی ضروریات کا پیش خیمہ رہی ہیں اور تنظیمیں ضرورت پڑنے پر ہی تنظیمی تشہیر جیسے اقدامات کیلیے پالیساں ترتیب دی جاتی ہیں۔ تنظیمی ترجیحات میں تشہیرکو عمومی حالات میں اول درجے پر رکھنے کی وجہ سے دیگر تنظیمی امور پر توجہ مرکوز رکھنے میں دشواری ہوتی ہے جس کی وجہ سے تنظیمی معاملات اور تحریکی ترویج میں خلل پڑتی ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں تنظیمی ارکان کا زیادہ سے زیادہ Potential تنظیمی اور تحریکی معاملات کیبجائے صرف تنظیمی تشہیر میں صرف ہوجاتا ہے جو تحریکوں کیلیے نہایت ہی تشویشناک ہے۔
دنیا کی دوسری تمام اشیا کی طرح جدلیاتی اور ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے Propaganda tools آئے روز نئی، جدید اور سہل ترین اشکال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جلسہ جلوس، ریلیوں، پمفلٹنگ اور رسالہ جات کے برعکس تشہیری مہمات نے بھی جدید عہد کیساتھ جدید شکل اختیار کی ہے۔ سوشل میڈیا،انٹرنیت، ویب سائٹس اور نئے ذریعہ مواصلات کے ایجاد کیساتھ ہی تنظیمی تشہیر کا رُجحان بھی بدل گیا۔ ماڈرن ذریعہ تشہیر نہایت سہل اور زیادہ سے زیادہ موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔
لیڈرشپ تشہیر
کسی بھی انقلابی تنظیم کی مضبوطی کاانحصار اُس کی تنظیمی آئین اور تنظیمی لیڈرشپ پر ہوتی ہے کیونکہ یہی وہ دو Pillars ہیں جن پر تنظیمیں مضبوطی کیساتھ قائم ہو کر تنظیم کو تحریک میں ایک اہم اساس بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ تنظیمی لیڈرشپ تنظیمی فیصلہ ساز ادارے کے ارکان ہوتے ہیں اور تحریک کو سمت فراہم کرتی ہیں۔ لیڈرشپ تنظیم کے سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے اور تنظیمی امور کو سرانجام دینے کے لیے اراکین کو ہدایت نامہ جاری کرتی ہے۔ لیڈرشپ تنظیم کے سب سے اہم ارکان ہوتے ہیں اور تنظیمی مضبوطی انھی کیساتھ بندھی ہوتی ہے۔ بعض سیاسی مدبرین کے نظر میں تنظیمی لیڈرشپ کا تنظیم میں کردار ایک تناور درخت کے جڑوں جیسی ہوتی ہے جن کی مضبوطی ہی درخت کی سرسبزی اور تمام شاخوں کے ہریالی کی ضامن ہوتی ہے۔ تنظیموں میں لیڈرشپ کے کلیدی کردار کے پیش نظر تنظیموں اور عام کارکنوں کیجانب سے لیڈرشپ کی تشہیر کیجاتی ہے جو بعض اوقات تنظیموں اور تحریکوں میں منقی جبکہ بعض اوقات مثبت کردار اداکرتی ہے۔کیا انقلابی تنظیموں میں لیڈرشپ کی تشہیر جائز ہے؟وہ کونسے پہلو ہیں جو لیڈرشپ کی تشہیر کو جائز قرار دیتی ہیں؟لیڈرشپ کی تشہیرکس حد تک جائز ہے اور وہ کونسے عنصر ہیں جو ایسے مہم کے منفی اثرات پر منتج ہوتی ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو تنظیمی لیڈرشپ کی تشہیر کے سلسلے میں تنظیموں اور ان کے ارکان کو ذہن نشین کرنی چاہیے۔ مذکورہ تحریر میں اِن تمام سوالات پر سیر حاصل بحث کیساتھ اُن تمام عوامل کا بھی تذکرہ کیا جائے گا جو ایسی مہمات سے اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
کسی بھی انقلابی تنظیم میں لیڈرشپ کی تشہیر کسی نہ کسی حد تک جائز ہے جبکہ حدود کے پار ہونے کی صورت میں تحریک اور تنظیم پر اِس کے منفی اثرات پڑنے کے خدشات زیادہ سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ تنظیمی لیڈرشپ کو ہمیشہ ہی تنظیمی ترجمان گردانا جاتا ہے اور یہی وہ ارکان ہوتے ہیں جو عوام اور میڈیا کے سامنے تنظیمی موقف کو بلا جھجک پیش کرتے ہیں۔ عوام میں تنظیمی تشہیر کیلیے تنظیمی ترجمان کی تشہیر نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ عوام تحریک کا وہ اکائی ہے جو تنظیمی ترجمان پر ہی اعتماد کر کے تنظیم پر اعتماد کرتی ہے لہذا کارکنان کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ عوام کے سامنے تمام اندرونی اختلاف کو پس پشت ڈال کر تنظیمی لیڈرشپ کی مثبت تشہیر کرے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں عوام اور تنظیمی ترجمانوں کے درمیان ایک خلا پیدا ہو جاتی ہے جس کا خمیازہ عوام کا تحریک سے دستبردارہونے اور تحریک سے بدزن ہونے پر منتج ہوتی ہے۔ انقلابی تنظیموں کے لیے سب سے زیادہ باعث تشویش عوام میں گھر کرنے والی رد انقلابی قوتیں ہیں جو انقلابی تنظیموں کیخلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ ردِ انقلابی تنظیموں اور دیگر قوتوں کی جانب سے سب سے پہلا وار انقلابی تنظیموں کے رہنماؤں کی کردار کشی ہوتی ہے جس کے لیے وہ اپنے تمام ہربے اور سامراجی مشینری کا ستعمال سے گریز نہیں کرتی ہے۔ سامراج نواز رد انقلابی تنظیموں کا منفی پراپیگنڈہ عوام میں مایوسی اور ترجمانوں سے بدزن جیسے حالات کی شکل اختیار کرنے کیساتھ ساتھ تنظیمی پذیرائی میں خلل ڈالتی ہے۔ ایسے حالات سے گریز کرنے اور لیڈرشپ کیخلاف منفی تشہیر کو کاؤنٹر کرنے کے لیے لیڈرشپ کی تشہیر ضروری امر بن جاتی ہے جس سے عوام کا تنظیم اور اُس کے لیڈرشپ پر اعتماد بحال رہتا ہے اور تنظیمی سرگرمیوں کا تسلسل قائم و دائم رہتا ہے۔
تنظیم،تحریک اور لیڈرشپ ہمیشہ ایک دوسرے پر Inter-dependent رہے ہیں کیونکہ تنظیم تحریک کا ترجمان ہوتا ہے اور لیڈرشپ تنظیم کا ترجمان ہوتا ہے اور اِن میں سب سے بالا حیثیت تحریک کو حاصل ہے کیونکہ باقی دونوں اساس تحریک پر ہی منحصر ہیں۔ لہذا تنظیم کی ترویج اور پذیرائی کے حصول کیلیے تنظیمی لیڈرشپ کی پذیرائی ضروری ہوتی ہے جس کا واحد ذریعہ تشہیر ہی ہوتا ہے۔
لیڈرشپ تشہیر اور منفی رجحانات
لیڈرشپ تشہیرتنظیمی اور تحریکی ضروریات کے پیش نظر کسی نہ کسی حد تک جائز جبکہ بعض اوقات تنظیمی تشہیر منفی رجحان اختیار کر کے تنظیمیوں اور تحریکوں کیلیے ایک گھناؤنا عمل ثابت ہوتاہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تنظیمی لیڈرشپ کا چناؤ کارکنان کی آراء، عوامی اعتماد اور اپنی قابلیت کے بنا پر کیا جاتا ہے اور لیڈرشپ کی تعین کے ساتھ ہی تنظیمی پالیسیوں کی ترتیبی حقوق لیڈرشپ کے سر پر ہی جاتا ہے لیکن بعض اوقات لیڈرشپ تشہیر اور عوامی پذیرائی لیڈرشپ میں نرگسیت جیسے مرض کی پروان چڑھنے کا باعث بنتی ہے۔ ایسے حالات میں لیڈرشپ اپنے فیصلے کو اٹل اور خود ہی میں محو رہ کر تنظیم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ نرگسیت ایک ایسا مرض ہے جس کے چند معمولی اثرات سے زائد کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں اشخاص خودپرستی جیسے منفی رجحان کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ تنظیمی لیڈرشپ میں نرگسی رویوں کے پرورش کی بنیادی وجہ بے جا لیڈرشپ تشہیر اور تنظیمی لیڈرشپ کو ضرورت سے زائد اہمیت کے حامل بناکر انھیں تحریک اور تنظیم سے بھی مقدس گرداننا ہے۔ ایسے رجحانات میں اضافے کی صورت میں تنظیمی لیڈرشپ تنظیموں میں بطور Dictator اثر و رسوخ رکھنے پر مائل ہونے اور تنظیمی لیڈرشپ کا تحریک اور تنظیم سے بالاتر گرداننے پر منتج ہوتی ہے۔ اس اثنا میں لیڈرشپ عوامی حمایت، کارکنان کی رائے اور ایسے تمام عوامل کو پس پشت ڈالتی ہے جو بحث ومباحثے کے لیے موضوع ہوں اور ایسے حالات میں تنظیمی لیڈرشپ کا من چاہے فیصلے لیکر عملی جامہ پہنانا تنظیموں کیلیے نہایت ہی نقصاندہ بن جاتا ہے کیونکہ ایسے تمام فیصلوں اور پالیسیوں میں تنظیمی ضروریات اور تحریکی اغراض کیبجائے ذاتی خوشنودی اور ادراک جیسے عنصر کی شمولیت کے خدشات زیادہ پائے جاتے ہیں۔
لیڈرشپ تشہیر کاضرورت سے زائد ہونے کی صورت میں تنظیم میں اقربا پروری جیسے رجحانات کی بڑھوتری اور سفارشی کلچر کے پروان کا باعث بنتی ہے کیونکہ تنظیمی لیڈرشپ تنظیم میں اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے انھی کارکنان کیساتھ نزدیکی اور ایسے کارکنان کو عہدوں پر فائز کرتی ہے جو اُن کی تشہیر یا کہ جی حضوری میں وقت صرف کرتے ہیں۔یوں کارکنان کے درمیان ذاتی عناد جیسے رُجحان کی پرورش ہوتی ہے اور مُختلف ارکان تنظیم سے متفرق ہوجاتے ہیں۔اس رُجحان کے نہایت ہی منفی اثرات تنظیم اور تحریک پر پڑتے ہیں کیونکہ اس صورتحال میں تنظیم کے اندر گروہ بندی اور تنظیم میں مختلف دھڑوں کی تشکیل یقینی بن جاتی ہے جو تنظیم میں پرشت و پروش اور کئی قابل ارکان کا تنظیم اور تحریک سے منحرف ہونے پر منتج ہوتی ہے۔
لیڈرشپ کی تشہیر تنظیم میں ایک ایسے رُجحان کا باعث بنتی ہے جہاں لیڈرشپ اپنے آپ کو تحریک اور تنظیم سے بالاتر گردانتی ہے۔ اسی اثنا میں تنظیمی کارکنان یہ بات ذہن نشین کرلیتے ہیں کہ تنظیمی لیڈرشپ تمام غلطیوں سے پاک اور اُن کے جاری کردہ پالیسیوں میں کسی بھی قسم کے نقص کا اندیشہ نہایت ہی کم ہے۔ ایسی صورت میں تنظیمی کارکنان لیڈرشپ کی جاری کردہ پالیسیوں پر تنقید کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور ایسے تمام عناصر کیساتھ بغیر کسی دلائل کے گالم گلوچ کا سہارا لیکر بحث مباحثہ کرتے ہیں جو کسی بھی انقلابی تنطیم کے زوالی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جو تنظیم میں تنقید کی کمی اور کارکنان کے تخلیقی قوتوں کو نڈھال بنانے میں نہایت ہی موثر کردار ادا کرتی ہے۔ ایسی صورتحال کا سامنا اکثر تحریک میں سرگرم دو مختلف تنظیموں کے کارکنان کا بھی ہوتا ہے کیونکہ دونوں تنظیمی کارکنان انقلابی اصولوں کو سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں اور تنظیمی فیصلوں پر تنقید کو لیڈرشپ پر تنقید سمجھتے ہیں اور اِس سلسلے میں تحریک میں شامل مختلف تنظیموں کے کارکنان بے فائدہ اور نقصاندہ ذاتی جھگڑوں میں پڑ جاتے ہیں اور یوں تنظیمیں کمزور اور تحریک سُست پڑ جاتی ہے۔
لیڈرشپ تشہیر کاسب سے زیادہ منفی پہلو حقائق کو چھپا کر دروغ گوئی کا سہارا لینا ہے جسے بعض اوقات تنظیمی کارکنان تنظیم کی ترویج اور نئے ارکان کی شمولیت کے لیے اپناتے ہیں۔دروغ گوئی کا سہارا لینا تنظیم اور تحریک کیلیے نہایت ہی نقصاندہ ہے اور اِس بارے میں لینن کہتے ہیں کہ
” میں سمجھتا ہوں کہ تم عوام کے ساتھ سچ بولنے سے ڈرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رہنما
جو اپنے حلقوں میں سچ کی شناخت کرتے ہیں اور عوام تک اس سچائی کو اس لیے نہیں
پہنچاتے کہ وہ عوام کو کم فہم، جاہل سمجھتے ہیں۔ سچ بولو۔ اپنی شکست کو کبھی فتح کے طور پر
پیش نہ کرو۔ اگر تم سمجھوتا کرتے ہو تو عوام کو بتاؤ تم نے سمجھوتہ کرلیا ہے۔ اگر تمھیں آسانی
سے فتح حاصل ہوئی ہے تو اُن سے یہ نہ کہو کہ یہ فتح حاصل کرنا بڑا مشکل تھا اور اگر فتح پانے
میں دقت ہوئی ہے تو شیخی مت بگھاروکہ فتح آسان تھی۔ اگر تم نے کوئی غلطی کی ہے تو مانو
کہ تم نے غلطی کی ہے۔ اگر حالات راستہ بدلنے پر مجبور کرتے ہیں تو اس حقیقت کو لوگوں
سے نہیں چھپاؤ۔”
لینن(نیلی نوٹ بُک)

مندرجہ بالا سیر حاصل بحث اس بات کی دلیل ہے کہ لیڈرشپ تشہیر ایک نہایت ہی پیچیدہ عمل ہے جس کے مثبت اور منفی پہلووں کا ادراک ہونا تنظیمی اراکین کے لیے نہایت ہی ضروری ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں تنظیموں اور تحریکوں میں منفی رویوں کی بونچھال ہونے کے خدشات زیادہ پائے جاتے ہیں۔ انقلابی کارکنان میں ایسے رویوں کی پرورش، تنظیم کی زبوں حالی اور تحریک میں جمود پر منتج ہوتی ہیں۔ لہذا تنظیمی کارکنان ایسے تمام عوامل کو مد نظر رکھ کر اور تحریکی مفادات کو زیربحث لا کر تمام ذاتی عناد، بغض اور کینہ کو پس پشت ڈال کرلیڈرشپ کی تشہیر جیسے پالیسیوں کا حصہ بنیں اور تمام منفی رجحانات کو اپنانے سے گریز کریں۔
ذاتی تشہیر
جس طرح تحریر کے اولین سیکشن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انقلابی تحریکوں میں مقصدکے بجائے کسی بھی دوسرے اساس کو یہ حیثیت حاصل نہیں جو مقدس بن جائے لہذا انقلابی تحریکوں میں نہ تو تنظیمیں اور اُنکی لیڈرشپ اور نہ ہی کارکنان کسی بھی صورت میں مقصد سے بالاتر ہوسکتے ہیں۔انقلابی تحریکوں میں ایسے رُجحانات جہاں تنظیمیں،رہنما یا کارکناں خود کو مقصد سے بالاتر سمجھیں تحریکوں کے ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ انقلابی تحریکوں کیلیے بطورِ اساس سرگرم اور متحرک تنظیموں کے کارکنان کا تنظیم اور تحریک کو بنیاد بنا کرخود کی تشہیر ذاتی تشہیر کہلاتی ہے۔ ذاتی تشہیر کسی بھی حالت میں کسی بھی موقع پر نہایت ہی نقصاندہ ہے۔مذکورہ تحریر میں ایسے رُجحانات کے پرورش کی وجہ اور تشہیری رویوں کا تنظیمی سرگرمیوں میں دخل کیساتھ اُن تمام عوامل کو زیرِ بحث لایا جائے گاجو تشہیر کی وجہ سے تحریک کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
ذاتی تشہیر سے مراد تنظیمی اراکین میں سے کسی بھی ارکان کا تنظیم کے نام پر خود کی تشہیر ہے۔ انقلابی تحریک میں کسی بھی ذات کی شناخت تنظیموں اور تحریک سے کیجاتی ہے۔ لہذا ایسی تحریکوں میں کسی بھی شخص کی شہرت اسکی تنظیم اور تحریک کیساتھ وابستگی ہوتی ہے جسکی وجہ سے فرد ہمیشہ تحریکوں اور تنظیموں کا مستعار ہوتی ہیں جبکہ تنظیمیں اور تحریکیں کبھی بھی فرد کا مستعار نہیں ہوتیں کیونکہ مقصد کی خاطر کسی بھی انقلابی تنظیم کے پلیٹ فارم سے جدوجہدفرد کا فرض ہوتا ہے۔انقلابی تنظیموں میں ذاتی تشہیر تحریک کو روایت پرست سیاسی رجحان کی جانب راغب کرتی ہے جہاں نئے اراکین ایک ایڈوانچر کے تحت تنظیموں کا حصہ بنتی ہیں اور اِس عمل میں خود کی تشہیر کو مدنظر رکھ کر تنظیمی سرگرمیوں کو بجا لاتے ہیں۔ اِس ضمن میں ارکان خود کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں وہ خود کو ہی تنظیم کا حقیقی وارث گردانتے ہیں اور تنظیم میں پائے جانے والے Hierarchy کو ایک ڈھونگ سمجھ کر خود کو تمام اداروں سے بالاتر سمجھنا ممبرز کی فطرت بن جاتا ہے۔ اراکین تنظیمی لیڈرشپ کو ایک کٹھ پتلی سمجھ کر تمام تنظیمی پالیسیوں سے روگردانی کرنے لگ جاتے ہیں۔ اِس مرض کے ساتھ ہی تنظیم میں ایک تشہیری دوڑ لگ جاتا ہے جہاں ایک ارکان دوسرے ارکان پر ہاوی ہونے میں جتا ہوتا ہے۔ اس طرح اراکین کی تمام تر توجہ اور تمام تر انرجی خود کی تشہیر میں صرف ہوجاتی ہے اور تمام تنظیمی سرگرمیاں جام ہو کر تحریک کے جمود پر منتج ہوتی ہیں۔
انقلابی تنظیم میں تشہیری رُجحان کے پیدا ہونے کے باعث کارکنان میں سے”وت گھڑ”لیڈرز کا جنم ہوتا ہے۔ یہی وہ ارکان ہوتے ہیں جو نرگسی رویوں کا مرتکب ہو کر تنظیم اور تنظیمی پالیسیوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور کئی ایسے اعمال کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے تنظیم اور دیگر اراکین کے نقصان کا خدشہ ہو۔ تشہیری رُجحان کے باعث رازداری جیسے خاص پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے کیونکہ تشہیر پسند ارکین اکے لیے تنظیمی راز کے بجائے خود کی تشہیر سب سے اہم ہوتا ہے۔ انقلابی تنظیموں کی پالیسیوں سے صرف اور صرف تنظیم اور اُس کے اراکین واقف ہوتے ہیں جبکہ تشہیری رجحان کے باعث تنظیمی اراکین تنظیمی پالیسیوں کا تذکرہ تسلسل کیساتھ کھلے عام کرتے ہیں جس کی وجہ سے تنظیمی پالیسیاں موثر انداز میں عملی شکل اختیار نہیں کر پاتی۔تنظیمی راز کے پردہ فاش ہونے کی وجہ سے ردِ انقلابی اور دُشمن قوتیں تنظیموں کو بے بہا نقصان پہنچاتے ہیں۔
انقلابی کارکنان کا اپنے ذات تک محدود ہونے اور خود پرستی جیسے مرض کا شکار ہو کر تنظیمی پالیسیوں کو پس پشت ڈالنے سے اراکین کی تخلیقی،علمی اور سیکھنے کی صلاحیت مانند پڑ جاتی ہے۔ تنظیمی اراکین کاکسی بھی مخصوص صلاحیت کا حامل نہ ہونے کے با وجود بھی خود کو حرفن مولا سمجھنا ذاتی تشہیر کے مترادف ہے۔ اِس رُجحان کے باعث تنظیمی اراکین ایک ایسے تصوراتی دُنیا میں جی رہے ہوتے ہیں جہاں وہ خود کو عظیم سیاست دان، پائے کا دانشور، عظیم مصنف اور شاعر تک گردانتے ہیں۔اِس تصوراتی دُنیا میں انھیں صرف اپنا ہی عکس دکھتا ہے اور تنظیم کے باقی عہدیداران اور اراکین کو کسی بھی کھاتے میں ڈالنے تک تیار نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں تنظیمی اراکین کے ذاتی تعلقات خراب پڑ جاتے ہیں اور تنظیم میں پرشت وپروش، تنظیمی امور میں خلل اور تحریک پر دیگر منفی اثرات پڑ جاتے ہیں۔ یہی وہ رویے ہیں جن کی وجہ سے عوام اور تنظیموں کے درمیان ایک خلا قائم ہوجاتی ہے کیونکہ تنظیمی ارکان عوام کو نابلد اور جاہل سمجھنے لگ جاتے ہیں جبکہ خود کو تحریک کا سرکردہ رہنما اور ہر حوالے سے مکمل انسان سمجھتے ہیں۔
ذاتی اور شخصی تشہیر کسی بھی انقلابی تنظیم کیلیے نہایت ہی نقصاندہ ہے۔ ایسے رُجحانات تنظیم کو اندرونی طور پر کھوکلا کر دیتی ہیں اورتحریکوں کو بے تحاشہ نقصان پہنچانے کا حامل ہوتی ہیں۔ تنظیمی لیڈرشپ کیلیے ازحد ضروری ہے کہ وہ ایسے تمام عوامل کا ادراک کرے اور اِس رُجحان کے خاتمے کیلیے جامع پالیسی اپنائے۔تنظیمی ارکان کسی بھی صورت میں ذاتی تشہیر اور شخصی تقلید کے بجائے تنظیمی اور تحریکی سرگرمیوں کو ترجیحی بنیادوں پر بجا لائے۔ انقلابی تنظیمی رشتے نہایت ہی پاک ہوتے ہیں کیونکہ یہی وہ رشتے ہیں جو مخصوص نظریے کا پیروکار ہیں جن میں کسی بھی ذاتی اور شخصی مفادات کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ جس طرح کسی بھی انقلابی تنظیم کیساتھ اراکین کا رشتہ ذاتی اور شخصی مفادات سے پاک ہوتا ہے اسی طرح ذاتی تشہیر جیسے منفی رُجحان سے گریز بھی تمام اراکین کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔

Share To

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *