ہمارے لیے شمعیں ہم خود جلائینگے۔ ڈاکٹر صبحیہ بلوچ

ہمارے لیے شمعیں ہم خود جلائینگے۔
ڈاکٹر صبحیہ بلوچ
۔
کسی مسکراتے انسان کی تصویر رکھ کر، سامنے پھول بچھا کر ، موم بتی جلاکر نہ جانے تم کونسی رسم دنیا نبھاتے ہو؟ جب یہی انسان موت کے منہ میں جھونکا جاتا ہے تو بولتے کیوں نہیں؟ کیا تم انتظار میں ہو کہ کب کوئی مر جائے اور ہماری انسانیت موم بتیاں جلا کر غم ہلکا کردے۔ وہ جو روزانہ موت کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں تو تم چپ رہتے ہو ، کیوں موم بتیوں کی روشنیاں مردہ لوگوں کے لیے ہے؟ کیا زندہ لوگوں کو بس تاریکیوں پہ حق ہے؟ کیا آ پ کی یکجہتی کے لیے ہمارا مرنا ضروری ہے؟ کیا آپکے موم بتیوں کو بس موت کا
انتظار ہے؟؟؟؟
چلو! آج روایات کو توڑتے ہیں، تم جو مرنے والوں کے انتظارمیں زندہ لوگوں کو درگزر کر دیتے ہو، چلو اب کے بار یہ موقع تم سے میں چھین لیتی ہوں، ہم جو ہر روز موت کی جانب بڑھ رہے ہیں، اپنے لیے موم بتی بھی خود روشن کر لیتے ہے، پھر جو ہم مر جائے تو تمہیں ضرورت نہ پڑھے۔
پر میرے موم بتیوں اور تمہارے موم بتیوں کا مقصد الگ ہے، میں انہیں روشن کرکے زندگیوں کو روشنی کا پیغام دونگی، میں دنیا کو بتاونگی کہ روشنیوں کے لیے مرنے کی ضرورت نہیں روشنیاں تو زندگی کی علامت ہے، روشنیاں تو مزاحمت کا ثمر ہے، دنیا کو روایات اب بدلنے ہوگے ، روشنیاں
زندگی کو بخشنی ہوگی۔
تمہیں یاد ہو کہ سال پہلے تم نہ بی ایم سی میں یوسف پرکانی کے لیے شمعیں روشن کی، تمہیں یاد ہو ہفتوں پہلے تم نے حیات کے لیے شمعیں روشن کی، افسوس کہ تم نے روشنیوں کو مرنے کے لیے وقف کر دیا، پر اب ان روایات کو بدلنا ہوگا، ہر حیات کے قتل ہوجانے سے پہلے، ہر یوسف کے قتل ہوجانے سے پہلے تم شمعیں روشن کر لینا ، تم زندہ ہو تو اپنی زندگی میں شمعیں روشن کر لینا، ہم جو تمہارے زندگیوں کے لیے خود کو قربان کرنے لیے بیٹھے ہیں
ہمارے لیے شمعیں ہم خود جلائینگے۔

Share To

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *