قتل کی یاداشتیں۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

قتل کی یاداشتیں
تحریر: ڈاکٹر صبیحہ بلوچ
کئی دنوں سے ایک ڈرامائی تحریر لکھنا چاہتی تھی جسے ” سات لاشیں ” کی عنوان دینا چاہتی تھی، یہ لاشیں چند جنگجو کرداروں کی ہیں، جنہیں میں اپنے خیالات سے بنانا چاہتی ہوں “بہادر جنگجو خواتین” جن کی زندگی عام کرداروں سے نکل کر ایک تاریخ کو تشکیل دے دیتی ہیں، یہ ایک ڈرامائی اور خیالاتی تخلیق ہے، جسے محسوس بھی تبھی کر سکتی تھی جب میں اسے اسی طرح سے تخلیق کر پاتی جیسے میں سوچ رہی تھی۔مگر پھر اْس رات یہ ڈرامائی تحریر ایک ڈراؤنے حقیقت کی طرح نمودار ہوئی۔۔ گھر سے ایک حادثے کی اطلاع ملی، جب پہنچی تو ہال میں قدم رکھنے کی جگہ نہیں تھی، تین چارپایوں پر چار میتیں رکھی ہوئی تھیں اور ارد گرد چاروں اطراف ماتم زدگان۔۔۔۔
گاڑی میں کتنے لوگ تھے؟ جواب ملا، سات، اور باقی؟ انہیں شدید زخمی حالت میں کراچی لے جا رہے ہیں۔ ذہن میں ڈرامائی تحریر گردش کر رہی تھی “سات لاشیں “، محسوس ہورہی تھی کہ ابھی اطلاع آئے گی کہ باقی تینوں کی بھی لاشیں آ رہی ہیں۔۔۔ نہیں, بس اب اور نہیں، وہ ڈرامائی تحریر یوں نہ تھی مگر میرے زخمی خیالات میں اسی طرح بس گئی وہ ” سات لاشیں ” جنگجووں کی تھیں مگر یہ چار لاشیں ایسے لوگوں کی تھیں جنہوں نے کوئی جنگ ہی نہیں لڑی مگر ہار گئے، پھر اس روڈ نے ایک ہی گھر کے چار لوگوں کو قتل کر دیا اور ہم نے پھر سے اسے حادثہ کہہ کر بری الذمہ ہوگئے۔۔
بلوچستان میں سالانہ ہزاروں لوگ ٹریفک حادثات کا نشانہ بن جاتے ہیں، ڈپٹی کمشنر سے لیکر مزدور تک زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ ان قاتل سڑکوں پر قتل ہو چکے ہیں۔ کسی نے انہیں قاتل شاہرا ہ لکھا تو کسی نے خونی روڈ مگر اس قاتل کے خلاف کوئی سنوائی نہیں ہوئی، نوجوانوں نے کچھ دن سوشل میڈیا کیمپئن چلائی کہ اس شاہراہ کو ڈبل کیا جائے، نجیب زہری اور اسکے ساتھیوں نے کراچی سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تاکہ سوتے حکمرانوں کو جگایا جاسکے، مگر نتیجہ کیا نکلا؟
ایم پی اے شکیلہ نوید کی ٹویٹ میں نتیجہ درج تھا
اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے کوئٹہ ٹو کراچی روڈ کو ڈبل کرنے سے انکار کر دیا ہے، قانون کے مطابق یومیہ ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیاں گزرتی ہوں تو ڈبل کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے بلوچستان کا کوئی قومی شاہراہ ڈبل نہیں ہو سکتا۔
یہ تھا وفاق کا جواب، سالانہ سینکڑوں قتل کرنے کے باوجود یہ شاہراہ بری ہوگیا، اور قصور بھی تو صرف شاہراہوں کا نہیں۔ جب یہ حادثوں کو صورت میں وار کرتے ہیں تو بچانے والے مسیحا بھی تو نہیں ہوتے۔ ٹراما سینٹرز جو میلوں دور فاصلوں پر موجود ہیں وہاں تک ”مقتول“ کو کس طرح پہنچایا جاتا ہے؟ جب جسم کی ساری ہڈیاں ٹوٹ چکی ہوں اور خون مسلسل بہہ رہا ہو تو زندگی کتنے قدم تک ساتھ دے پائے گی؟ اور جو ایمرجنسی سینٹر PPHI نے قائم کئے ہیں وہاں پر کیا کسی ڈاکٹر کو ATLS ایڈوانس ٹراما لائف سپورٹ پر دسترس حاصل ہے؟ کیا وہاں پر بلڈ گروپ معلوم کرنے والا محلول موجود ہے؟ پھر ایک فرد سے خون نکال کر نہ جمنے دینے والے محلول میں ملا کر دوسرے زخمیوں کو لگانے کی سہولت موجود ہے؟ اگر نہیں تو انہیں کیوں بنایا گیا ہے؟ صرف ایک پٹی باندنے کے لیے؟ جو کوئی عام شہری اپنا پٹو باندھ کر بھی کر سکتا ہے, اسکے علاؤہ ہزاروں کلو میٹر کے احاطے تک سپیڈ کیمرہ نام کی چیز موجود نہیں اگر ہو بھی تو شائد ہی آ ج تک کوئی پکڑا گیا ہو، اور بلوچستان کو تو ان تمام لاشوں کے لیے انصاف نہ ملا جو دن دہاڑے قتل ہوئے، ان حادثوں کو تو ابھی تک قتل بھی کہا نہیں جاتا، حادثہ کہا جاتا ہے۔ میں اگر کسی چیز کے لیے درخواست کروں تو پہلی یہی ہوگی کہ خدارا انہیں حادثہ نہ کہیں، قتل ہیں، قتل ہی کہناچاہیے۔
نجیب زہری اور انکے ساتھیوں نے جب لانگ مارچ کا ارادہ کیا تو انہیں کسی نے بتایا نہیں کہ “یا ہِچ یا اوچ”مانگئے، اگر ڈبل روڈ چاہتے ہو تو ساتھ میں ہر 50کلو میٹر کے لیے ایک ایمبولینس، ایک ٹراما سینٹر، ATLS کے اصولوں پر ٹریننگ شدہ عملہ مانگیں اگر نہیں تو صرف اتنا مانگیں کہ قانوناً ان سڑکوں پر مرنے والوں کو حادثہ نہیں قتل کہا جائے۔۔۔۔
لانگ مارچ کیجئے مگر امید نہ رکھنا کہ کچھ ہوگا، ہزاروں کلو میٹر چلنے کے باوجود کسی کو کسی کا کھویا ہوا بھائی نہیں ملا، سینکڑوں کلو میٹر چلنے کے بعد کسی کو منشیات سے چھٹکارا نہیں ملا۔۔۔۔جب تمہارے گھروں میں آ نے والے چار چار لاشیں انہیں جگاتے نہیں تو تمہارے پیروں کے چھالے کس کھاتے میں۔۔۔۔۔۔ ہاں ہم خود ایک کام کرسکتے ہیں، ہم قتل کی یاداشتیں محفوظ کر لیتے ہیں، جیسے اپنوں کو یاد رکھنے کے لیے عمارتیں بنائی جاتی ہیں ہم بھی کچھ ایسا بناتے ہیں۔۔۔۔۔ چند پیسے جمع کرکے، اینٹیں اور سیمنٹ خرید کر، روڈ کے ساتھ ساتھ چند فٹ اونچے مقبرے بناتے سکتے ہیں پھر ان کے اوپر اْس تباہ شدہ گاڑی کو آ ویزں کر دیتے ہیں، جیسے کسی عمارت پر گنبد آ ویزں کی جاتی ہے، کراچی سے کوئٹہ، مکران سے بسیمہ تک روڈ کے کنارے کنارے، یہ قتل کی یاداشتیں نمایاں ہوجاتی ہیں تو لوگ انہیں حادثہ کہنا بند کر دینگے، قتل کی یاداشتیں نمایاں ہوجائیں تو لوگ خود شائد رفتار کم رکھیں، قتل کی یاداشتیں نمایاں ہوجائیں تو ہر ملبے کو دیکھ کر اندازہ ہو گا کہ اس ٹوٹی ہوئی گاڑی میں کتنی ہڈیاں ٹوٹے ہونگی؟ کتنی چیخیں نکلی ہونگی؟ کتنی زندگیاں ہارگئی ہونگی؟ کتنے خواب خاکستر ہونگے؟ کتنے ارمان مٹی بن گئے ہونگے؟ کتنی روحیں زندہ جل گئی ہونگی؟ قتل کی یاداشتیں نمایاں ہوجائیں تو مرنے والوں کے قتل کے لیے مرحوم ڈرائیور پر ایف آئی آر نہیں کرایا جائے گا۔۔۔۔۔ چلو آ جاؤ نمرہ، نجیب زہری اور وہ تمام ماتم زدگان جو اپنے پیارے اس سڑک پر کھو چکے ہیں، چلو آ جاؤ ہم اپنوں کے قتل کی یاداشتیں محفوظ کر لیتے ہیں۔

Share To

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *