تقاضا وقت: تحریر شبیر بلوچ

علم  خیالات, فکر وعمل اور سوچ کی مرہون منت ہے جہاں انسان اپنی سماجی پسماندگی, محرومی اور ظلم کے خلاف مختلف مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرکے  ایک ایسے  سماج تشکیل دینے کو اپنا فرض سمجھ لیتی ہے جہاں ظالم اور مظلوم کا تصور نہ ہو جہاں انسانی زندگی ایک اہم مقام رکھتی ہوجہاں تمام رشتے انصاف کے ایک ایسے پیمانے پر قائم ہوں کہ ہر فرد خود کو ایک اُس معاشرے کا اہم اساس گردانے اورایسے فرد کی  اجتماع  مہذب معاشرے کی شکل میں اپنا وجود رکھتا ہے.   انسان جس سماج کا حصہ ہوتا ہے وہاں کے معمولات کے تحت اپنی سرگرمیاں انجام دیتا ہے اور اسی طرح  مختلف ممالک میں لوگوں کے سماجی حالات و نفسیات دوسری ممالک کے شہری کے برعکس ہوتے ہیں۔ آج اگر معمولی مطالبت کے تناظر میں معاشروں کو پرکھا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یورپی سماج اور ہمارے سماج کی مطالبات کافی حد تک جُدا جُدا ہیں۔سماجی ضروریات اور مطالبات میں فرق پر اگر ایک طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو اسکی اہم وجہ شہری ترقی اور پرامن تعلیمی اداروں میں علمی نشستیں ، اظہار آزادی اور تحقیق و تخلیق جیسے رجحان کا ہے اور جو معاشرے اس رجحان کو اپنا شیوہ گردانتے ہیں وہ  دُنیا کی نظر میں مہذب معاشرے کا عکس  پیش کرتی ہیں .ایسے معاشرے نوجوانوں کےلیے ایک ایسی فضا قائم کرتی ہیں جو  امید اور حوصلے کی آس لیے  معاشرے کی ترقی و ترویج میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں.  انسان کے عقل ہی نے طفیل ترقی کے مدارج طے کرکے تہذیب و تمدن کی بنیادیں استوار کی ہیں۔ اگر دنیا کی تمام ترقی یافتہ یا ترقی پزیر اقوام پر نظر دوڑائی جائے توتعلیمی اداروں کا ترقی کے ان ارتقائی مراحل میں ایک خاص کردار رہا ہے جسکی واضح مثال برطانیہ کے ہیں .برطانیہ جسے آج کی دنیا کے عظیم اور ترقی یافتہ ممالک کے فہرست میں ایک واضح مقام حاصل ہے. جغرافیائی حوالے سے اس چھوٹی سے مملکت میں موجود  کیمبرج یونیورسٹی دنیا کی ان عظیم تعلیمی درس گاہوں میں سے ایک ہے جہاں دنیا کی جانی پہچانی شخصیات  نے اپنی تعلیمی زندگی کو رواں بخشی ہے.  کیمبرج یونیورسٹی کے نوّے سے ز ائد فارغ التحصیل طالبعلموں نے اپنا لوہا منواتے ہوئے کسی بھی تعلیمی ادارے  کیجانب سے سب سے زیادہ نوبل انعام اپنے نام کر  چکے ہیں.مندرجہ بالا جن کارناموں کا ذکر کیا جا چکا ہےاُن کی بنیادی وجہ تعلیمی  اداروں میں ایک ایسے ماحول کے وجود ہوناہے جہاں طالبعلم  اپنی تعلیمی,  تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عظیم کارنامے سر انجام دیں. آج اگر بلوچستان کے تعلیمی اداروں پر نظر دوڑائی جائے تو حقیقت اِس کے برعکس نظر آئے گی. تعلیمی ادارے عملی کی آماجگہ کیبجائے فوجی چھاؤنیوں کا منظر پیش کر رہے ہیں.تعلیمی اداروں کے اندر قدم قدم پر چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں. گٹھن کے اس ماحول کو دوام بخشنے کےلیے طاقت کا استعمال زوروں سے جاری ہے جسکی حقیقت گُزشتہ  ہفتے رونما ہونے والے واقعات کے بعد عیاں ہوئی.اس واقعے کے بعد چند تحقیقاتی دستاویز بھی منظر عام پر آئیں اور اُن ہی میں سے ایک تحقیقاتی دستاویز کے مطابق بلوچستان یونیورسٹی گرلز ہاسٹل کے چوکیدار سے جب  سوال کیا گیا  کہ سکیورٹی اہلکاروں کو کیوں چھوڑا؟؟ تو اس کا جواب یہ تھا کہ وہ ہاسٹل کے دروازے سے نہیں آئے بلکہ سیڑھیاں لگا کر اندر داخل ہوئے تھے.   تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں نام نہاد قوم پرست قیادت لفظی بیانات اور اپنی سیاسی عُہدوں کو برقرار رکھنے کی کشمش ہیں. سیاست صرف ذاتی مفادات تک محدود ہو کر رہ چُکی ہے.  قوم پرستی, تعلیم دوستی اور تعلیمی ایمرجیسی جیسے کھوکلے نعرے لگا کر بلوچ سماج کو اپائج اور ذہنی طور پر مفلوج کرنے کی ایک دانستہ  کوشش جارہی ہے. بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں تعینات وائس چانسلرزسمیت بیشتر ملازمین کو سیاسی قوتوں کی جانب سے مکمل چھوٹ حاصل ہے اور انہیں کے ایماء پر مختلف پالیسیوں کے ذریعے بلوچ طلباءکو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.  دنیا میں انسانی اقدار کی پاسداری نہ کرنے والی اقوام کی نہ کوئی عزت ہوتی ہے اور نہ کوئی وقار، نہ ہی قدر کی  نگاہ سے اُنکی جانب دیکھا جاتا ہے.سوشل میڈیا کے اس دور جہاں دنیا کو ایک گلوبل ولیج تصور کیا جاتاہے وہاں ہمارے تعلیمی اداروں میں سائنسی اور ٹیکنیکل ترکیبوں کا استعمال صرف اور صرف جنسی ہوس کی تکمیل کےلیے کیا جاتا ہو ایک المیے سے کم نہیں.تعلیمی درسگاہوں میں ویڈیو اسکنڈل جیسے واقعات کا رونما ہونا ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ کسی سازش کے تحت ہمیں تعلیم سے دور رکھتے ہوئے ہمیں ایک سیاہ دور میں دکھیلا جا رہا ہے جو ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سنگین قومی المیہ کو حقیقی انداز میں پرکھتے ہوئے  صرف بلوچستان یونیورسٹی سے  ہی نہیں بلکہ مختلف علمی درسگاہوں میں جہاں یہ انسان نماجانور وجود رکھتے ہیں انھیں اُن کی عہدوں سے برخاست کرتے ہوئے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے.  ایسے واقعات کے ذکر میں جب بات طلبہ و طالبات کی ہوتی ہے تو ذہن میں ایک الجھان سی کیفیت جنم لیتی ہے کیونکہ یہی وہ طبقہ ہوتا ہے جو حکمران کے آنکھوں میں ہر دور میں کھٹکتی ہے اور سب سے زیادہ ظلم و بربریت کا شکار ہوتی ہے.  جو سماج ناانصافی انتشار پسماندگی کا شکار ہو وہاں طلبہ طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے  کہ علم کے چراغ روشن کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور سماج کو ایسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ہر وہ کوشش کریں جس سے معاشرہ ترقی کی جانب گامزن ہو سکے. بلوچستان یونیورسٹی جنسی ہراسگی کے مسئلے کو سطحی مسائل سمجھنا یونیورسٹی مافیا کے ہاتھوں کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا. اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنا کا واحد طریقہ عقلی علم کو سماجی عمل کی جانب موڑناہے  تاکہ طلبہ ذہنی لحاظ سے خود کو  تیار کریں اور یہ عمل اس وقت ممکن ہوجائے گا جب ہماری سیاسی عمل میں سنجیدگی آئے گی اور یہ وقت  عملی بنیادوں پر سوچنے کے ہے. ہمیں ایک سیاسی قوت کی ضرروت ہے جو قومی سطح پر قومی بقاء اور اجتماعی  فلاح و بہود کا ضامن بن سکے قومی  ترقی کی راہ میں  خوف اور ذاتی مفادات سے بالاہوکر ایک منظم نیشلزم سوچ کی بنیاد پر راہ ہموار کرنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والے نسل ان انسان نماجانوروں کے قید سے آزاد ہوسکے.اگر ہمارا حال یہی رہا تو یہ امر واضح ہے کہ افسوس، پشیمانی، مایوسی، ناامیدی، جیسے عمل حقیقت میں خود اپنے اندر نالائقی اور قومی سوال کو جنم دیں گے کہ تاریخ ساز دور کا حصہ ہوتے ہوئے ہم  کیوں خاموش تھے کیونکہ تاریخ اپنا حساب ضرور کرے گی.

Share To

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *