پہاڑوں کی بیٹیاں:‎ آزرمراد

مجھے کُردستان کی آزادی کی جنگ کے بارے میں تب پتا چلا جب میں نے اویا بدر کی لکھی ہوئی ناول ” گرفتار لفظوں کی
رہائی” کو پڑھا. ناول میں موجود سارے کردار تخلیقی ہیں اور ناول میں موجود سب مناظر اویا بدر کے پیدا کردہ ہیں اور ان
کرداروں کے درمیان ہونے والی ساری باتیں فرضی باتیں ہیں. ناول کی کہانی جن کرداروں کے بھیچ گھومتی ہے وہ کرداریں
شاید کبھی کُردوں میں پیدا بھی نہیں ہوئی ہیں لیکن ان کرداروں کے منہ سے نکلتی ہوئی ان فرضی باتوں میں جو درد اور جو
تمنائیں تھیں وہ نجانے کیوں مجھے تخلیقی نہیں لگیں. نجانے کیوں مجھے ایسا لگا کہ ان فرضی کرداروں کی زبانوں سے نکلنے
والی ہر فرضی بات کے اندر ایک حقیقی احساس چھپا ہوا ہے جو بلکل بھی فرضی نہیں ہے اور جس کو کسی نے تخلیق نہیں کیا
بلکہ وہ احساس ہر اُس کُرد کے اندر زندہ ہے جس نے پہاڑ دیکھے ہیں اور جو خود کو ان پہاڑوں کی آزادی کا محافظ سمجھتا
ہے.
‎یہ ناول پڑھنے کے بعد میں نے جب کُردوں کے بارے میں پڑھا تو مجھے پتا چلا کہ جس حقیقی احساس کو میں صرف ایک
احساس سمجھتا تھا وہ تو ان کُردوں کے اندر ایمان کی صورت اختیار کر چکا ہے. ایک ایسا ایمان جو کہ آسمانی نہیں ہے، زمینی
ہے. اور اس زمینی ایمان کی حفاظت کے بدلے کُرد مجاہدوں کو کچھ بھی نہیں چاہیئے. اور جب کسی مجاہد کو جہاد ( جنگِ
آزادی) کے بدلے کچھ نہیں چاہیئے تو سمجھ جانا چاہیئے کہ اُسے جہاد سے صرف شہادت ہی روک سکتی ہے اور کچھ نہیں.
میں نے جب کُرد عورتوں کو بقا کی اس جنگ میں کاندھوں پر کلانشکوف اور سروں پر کفنیں باندھتے دیکھا تو مجھے احساس
ہوا کہ جدوجہد کسے کہتے ہیں.
‎جس قوم کی لڑکیاں ہاتھوں میں کلاشنکوف لئے مسکرا کر یہ کہتی ہوں کہ Death makes us more beautiful تو ان کی
نسل کشی کرنے والی حکومتوں کو یہ سمجھ جانا چاہیئے کہ یہ قوم موت کے خوف سے شکست نہیں کھا سکتی. ایک بار مجھے
میرے ایک استاد نے کسی بادشاہ کی کہانی سنائی تھی. اس بادشاہ کے ملک پر کوئی اور بادشاہ حملہ کرنے آتا ہے اور اس کے
قلعہ کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے. کچھ مہینوں تک جنگ چلتی ہے اور پھر ایک دن قلعہ میں موجود کھانے پینے کا سارا
سامان ختم ہوجاتا ہے. حملہ آور بادشاہ قلعے کی سخت نگرانی کراتا ہے تاکہ کھانے پینے کا سامان کوئی بھی اندر نہیں لے جا
سکے اور قلعہ میں موجود بادشاہ بھوک سے شکست کھا کر قلعہ چھوڑ دے اور وہ اس پر قبضہ کر لے. سب کچھ حملہ آور
بادشاہ کے عین مطابق ہوتا ہے اور کھانے پینے کا کچھ بھی سامان قلعے کے اندر نہیں پہنچتا. جب ایک دو ہفتے گزر جاتے ہیں
اور حملہ آور بادشاہ کو اپنی فتح یقینی لگنے لگتی ہے تو قلعے کے اندر سے اسے ایک پیغام ملتا ہے. اس پیغام میں قلعے میں
محسور بادشاہ اس سے یہ کہتا ہے کہ ” ہمارے کھانے کے سارے ذخائر ختم ہوچکے ہیں اور جو بچا کچا ہے اس سے ہم آدھے
عمر کے لوگ اور سپاہی روز صرف ایک نیوالہ کھاتے ہیں اور بچوں کو پیٹ بھر کر کھانے دیتے ہیں. جب یہ ختم ہو جائیں گے
تو ہم قلعے میں موجود کتے اور بلیوں سے اپنی خوراک حاصل کریں گے اور جب وہ بھی ختم ہو جائیں گے تو میں اور میرے
سپاہی اپنا ایک ہاتھ کاٹ کر اپنی آنے والی نسل کا پیٹ بھریں گے اور ایک ہاتھ سے تم سے لڑیں گے. اور جب ہم مر جائیں گے
تو ہماری آنے والی نسل بلکل ایسی طرح تم سے لڑے گی لیکن تم ہم سے ہماری آزادی کبھی نہیں چھین سکو گے.” حملہ آور
بادشاہ یہ پیغام سن کر اپنی لشکر کو چلنے کا حکم دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ ” ان کی آزادی چھینا ہمارے بس کی بات نہیں.
اس کہانی میں قلعے میں موجود بادشاہ، اس کی آزادی اور اس کے آزاد رہنے کی ضد آج کی کُرد عورتوں میں بخوبی نظر آتی
ہے جو ہر گلی، چوراہے اور میدان میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی آذاد رہنے کی ضد پر ڈٹی ہوئی ہیں. یہ عورتیں
اپنی یہی ضد اپنے آنے والی نسلوں میں منتقل کرتی رہی گی اور وہ نسلیں اپنی آنے والی نسلوں میں اور سلسلہ چلتا رہے گا. تب
تک جب تک کہ ان سے ان کی آزادی چھینے والی حکومتوں کو حملہ آور بادشاہ کی طرح یہ احساس نہیں ہوگا کہ ان سے ان کی
آزادی نہیں چھینی جا سکتی

Share To

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *